فلم / ٹی وی

منوج باجپائی کی فلم ’پنجر‘ آپ کو کیوں دیکھنی چاہیے؟

Web Desk

منوج باجپائی کی فلم ’پنجر‘ آپ کو کیوں دیکھنی چاہیے؟

منوج باجپائی کی فلم ’پنجر‘ آپ کو کیوں دیکھنی چاہیے؟

2003 کو ہندوستان میں بننے والی فلم’پنجر‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی اور باکس آفس پر کامیاب بھی ہوئی۔ اس فلم کی بنیادی کہانی امرتا پرتیم کے ناول پر ہی مبنی تھی، البتہ اسکرین پلے اور اضافی مکالمے ’چندر پرکاش ڈیوڈی‘ نے لکھے۔

 فلم کی موسیقی اور شاعری میں بڑا حصہ گلزار نے ڈالا، جبکہ امرتا پریتم کی شاعری کے علاوہ معروف پاکستانی شاعرہ زہرہ نگاہ کی بھی شاعری کو فلم کا حصہ بنایا گیا۔ فلم کا انتساب چند خواتین کے نام کیا گیا، جس میں چند پاکستانی خواتین کے نام بھی شامل ہیں۔

فلم کے اداکاروں منوج باچپائی اور ارمیلا ماٹونڈکر سمیت دیگر فنکاروں نے متاثرکن اداکاری کی، لیکن سب سے دلکش چیز اس فلم کا سائونڈ ٹریک تھا، جو امرتاپرتیم کی نظم ’اَج آکھاں وارث شاہ نوں‘ پر مبنی تھا۔

 اس کو ہندوستان کے معروف کلاسیکی گائیک جوڑی ’’ولادی برادرز‘‘ نے گایا، یہ گیت اس قدر دل کو چھو لینے والا ہے کہ کہانی کے طلسم اور درد کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ 

پنجر کی کہانی:

امریتا پریتم کے ناول ’پنجر‘ کی کہانی ایک ایسی ہندو لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جو تقسیم کے وقت اپنوں سے بچھڑ گئی اور ایک مسلمان گھرانے کا حصہ بن گئی، پھر جب اس نے وہاں سے فرار ہونے کے بعد اپنوں میں واپس آنے کی ایک کامیاب کوشش کی، لیکن اسے مایوسی ہوئی، جب اس کے اپنوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا، پھر زندگی نے اس کو ایک ایسا موقع بھی دیا، جب وہ واپس اپنوں میں لوٹ سکتی تھی، لیکن پھر وہ واپس نہ گئی اور باقی کی زندگی اپنے ہونے والے مسلمان شوہر کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا، جس کے بارے میں حالات نے طے کیا تھا، وہی سب سے زیادہ مخلص تھا، جس نے اس سے سچی محبت کی تھی۔

 اس رومانوی کہانی میں دونوں ممالک کے مکینوں کا دکھ درد محسوس کیا جاسکتا ہے، اسی لیے یہ کہانی آج بھی دل میں اُداسی بھر دیتی ہے۔ 

اس ناول پر ہندوستان میں’پنجر‘ کے نام سے ہی فلم بنی جبکہ پاکستان میں ڈراما ’گھگی‘ بنا، جس کی ڈرامائی تشکیل آمنہ مفتی نے دی اور اسے ایک نجی چینل سے نشر کیا گیا۔

تازہ ترین