ٹریول

تاریخی شہر طائف کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

عہدِ اسلام میں طائف کبھی بڑا سیاسی مرکز نہ رہا

Web Desk

تاریخی شہر طائف کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

عہدِ اسلام میں طائف کبھی بڑا سیاسی مرکز نہ رہا

اسلام سے قبل طائف اور مکہ تو ’’ام شہر‘‘ رہے ہیں۔
اسلام سے قبل طائف اور مکہ تو ’’ام شہر‘‘ رہے ہیں۔

طائف جزیرۃ العرب کا ایک تاریخی شہر ہے جو مکے کے جنوب مشرق میں سطح مرتفع پر واقع ہے۔ 

سلسلہ کوہ سراۃ میں سطح سمندر سے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر آباد ہے۔ طائف سے مکہ تک آنے والی سڑک پیچیدہ گھاٹیوں سے گزرتی ہے۔

 اس کی لمبائی 75میل ہے لیکن براہِ راست فاصلہ خاصا کم ہے۔ سردیوں میں بعض اوقات یہاں پانی جم جاتا ہے۔ اسلام سے قبل طائف اور مکہ تو ’’ام شہر‘‘ رہے ہیں۔ 

طائف کی پیداوار کی مکے میں نکاسی ہوتی تھی اور مکہ کے متمول لوگ طائف میں زمینیں خریدتے اور گرمیوں کا موسم گزارنے آتے ہیں۔ طائف کے لوگ تجارتی سلسلے میں مکہ میں رہائش پذیر ہوتے۔

قرآن مجید میں مکہ اور طائف کو ملا کر ’’قریتین‘‘ (دو شہر) کہا گیا ہے۔ آغاز اسلام کے وقت یہ مغربی عرب کے بڑے شہروں میں سے ایک تھا۔ یہاں کا بت خانہ مکہ کے بت خانے کا حریف تھا۔ سعودی دور میں اس شہر نے گرمائی قیام گاہ کے طور پر شہرت حاصل کی ہے۔ 

اسلام سے قبل یہاں سے میووں اور ترکاری کے علاوہ انگور کی شراب، گیہوں، لکڑی اور دباغت شدہ کھالیں برآمد ہوتی تھیں۔ 

مکتوبِ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک میں جو اہلِ طائف کے نام ہے، غیرا (مکئی کی شراب) کو بھی حرام سمجھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ طائف میں شروع میں عامر بن الظرب کا قبیلہ عدوان بستا تھا، پھر ثقیف اور ایاد چلے آئے۔ بعد ازاں بعض دیگر قبائل جو اصلاف کے نام سے مشہور ہیں، یہاں مقیم ہوئے۔ 

خاندان بنو ہاشم کی طائف میں رشتہ داریاں تھیں۔ بنوعبدہ یا لیل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموؤں کا خاندان کہا جاتا ہے۔ ابولہب کی بیٹیوں کی اہلِ طائف سے شادیاں ہوئیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ کا بھی اہلِ طائف سے بہت کاروباری تعلق تھا۔ 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے ہم وطنوں میں تبلیغِ اسلام کرکے تھک گئے اور مایوسی کا احساس پیدا ہونے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماموؤں کی طرف رخ کیا لیکن وہاں بھی جسمانی اور روحانی تکالیف کے سوا کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ ہجرت کے بعد جلد ہی 623ء بمطابق 2ہجری میں سریہ نخلہ (مابین مکہ و طائف) پیش آیا جو اگرچہ اہل مکہ پر معاشی دباؤ ڈالنے کے لیے تھا مگر مکہ سے تجارت میں رکاوٹ پڑنے پر طائف کا متاثر ہونا ناگزیر تھا۔

مکہ اور مدینہ کی جنگوں میں اہلِ طائف ہمیشہ مکہ کی تائید کرتے رہے۔ جنگِ احد میں بھی طائف کے چند باشندے فوج میں شریک تھے۔ جنگ خندق میں تو بنو ثقیف کا ایک پورا دستہ مدینے کے محاصرے میں شریک تھا۔ اہلِ طائف کی تجارت یمن اور مکہ کے علاوہ عرب کے شمالی حصے میں بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صلح نامہ حدیبیہ میں صراحت ہے، جو مسلمان تجارت کے لیے طائف یا یمن جاتے ہوئے مکے سے گزریں گے، اُنہیں امان حاصل رہے گی۔

8ہجری میں فتح مکہ پر اہلِ طائف اور ان کے بدوی رشتہ داروں نے چراغ پا ہو کر شدید مخالفت دکھائی۔ اس موقع پر حنین میں پہلی کشمکش ہوئی اور پھر اس کا سلسلہ خود طائف میں جاری رہا جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی ہفتوں تک محاصرہ کیے رکھا۔ دوسری طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر بعض قبائل نے ان پر معاشی دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ ایک سال کے اندر اندر پریشان ہوکر اہل طائف نے اطاعت قبول کرلی۔ 

اطاعت کے بعد بھی وہ اسلامی ارکان کی ادائیگی اور سود و شراب نوشی سے گریز پر آمادہ نہ ہوتے تھے۔ لیکن حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھانے پر آہستہ آہستہ بالآخر ان میں تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی۔

شہر طائف کی موجودہ فصیل عثمانی ترکوں کے دور کی ہے۔ محاصرہ طائف کے شہداء کا قبرستان موجودہ فصیل کے باہر واقع ہے۔ کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ بھی اسی جگہ دفن ہیں۔

عہدِ اسلام میں طائف کبھی بڑا سیاسی مرکز نہ رہا لیکن اس کی سرپرستی معاشی لحاظ سے ضرور جاری رہی۔ روایت ہے کہ دور عباسیہ میں نہر زبیدہ کی تعمیر کے بعد اس کی نگہداشت کے لیے ملکہ زبیدہ نے طائف کے بعض رقبے وقف کردیئے تھے۔ عہد عباسی کا تعمیر شدہ ایک راستہ جو جبل کراء سے ہوکر طائف کو جاتا ہے، اب بھی موجود ہے۔

چوتھی صدی ہجری اور بعد کے جغرافیہ داں اسے ایک چھوٹا شہر (بلدہ صغیر) بتاتے ہیں۔ یہاں کی موجودہ آبادی ساڑھے پانچ لاکھ کے قریب ہے اور اس وقت یہ سعودی عرب کے بہت زیادہ ترقی یافتہ شہروں میں سے ہے۔ یہ شہر اب فصیل سے باہر دور دور تک پھیل گیا ہے۔

تازہ ترین