حسینہ واجد کی وزارت عظمیٰ کے آخری گھنٹوں میں کیا ہوا؟
معزول وزیراعظم آخر وقت تک طاقت کے استعمال کا حکم دیتی رہیں۔
پیر کے روز بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں لاکھوں مظاہرین وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ گونوبھوبن کی جانب بڑھ رہے تھے، جن کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا 'وزیراعظم کا استعفیٰ'۔
مظاہرین کا ایک سمندر تیزی سے قریب آنے کے ساتھ،حکام نے اندازہ لگایا کہ وہ حسینہ واجد کی رہائش گاہ سے صرف 45 منٹ کے فاصلے پر ہیں جس کے بعد بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم کو ایک دردناک فیصلے کا سامنا کرنا پڑا۔
حسینہ واجد جو 2009 سے بنگلہ دیش میں اقتدار کی کرسی پر قابض تھیں، انہوں نے بالآخر وہاں سے نکلنے کا انتخاب کیا۔ لیکن اس فیصلے سے پہلے گھنٹوں فون کالز اور ملاقاتیں جاری رہیں۔
ڈھاکہ سے شائع ہونے والے اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوشش میں طاقت کا استعمال کرتے ہوئے شیخ حسینہ آخر تک اپنی پوزیشن پر قائم رہیں۔
رپورٹ کے مطابق،ملک سے فرار ہونے سے پہلے انہوں نے قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں اور دفاعی فورسز کے اعلیٰ حکام پر تقریباً ایک گھنٹے تک دباؤ ڈالا، جو پیر کی صبح 10:30 بجے شروع ہوا۔
تاہم، اس وقت تک سرکاری رہائش کی طرف جانے والی ڈھاکہ کی سڑکیں ملک کی تاریخ میں شاید سب سے زیادہ لوگوں کے مجمع سے بھر گئی تھیں، اتوار کو 98 بنگلہ دیشیوں کی المناک ہلاکتوں کے بعد طلبہ رہنماؤں نے ایک دن پہلے ہی گونوبھوبن پر حملہ کرنے کا عزم کیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ 3 ہفتوں سے حسینہ واجد بھاری ہتھیاروں سے مسلح افواج اور اپنی پارٹی کے کارکنوں کو استعمال کرنے کے باوجود طلبا کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں اور وسیع عوامی بے چینی پر قابو پانے میں ناکام رہی تھیں۔
متعدد ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار کی رپورٹ میں حسینہ واجد کے استعفیٰ سے 4 گھنٹے پہلے اور آخر کار بھارت فرار ہونے کا احوال فراہم کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے، عوامی لیگ کے کچھ رہنماؤں نے اتوار کی رات ہی فوج کو اقتدار منتقل کرنے کے لیے حسینہ واجد کو قائل کرنے کی کوشش کی، تاہم انہوں نے یہ مشورہ ماننے سے انکار کردیا۔
اس کے بجائے حسینہ واجد نے پیر سے شروع ہونے والے ایک سخت کرفیو کا حکم دیا، جس میں بنگلہ دیش میں انٹرنیٹ سمیت ہر چیز کو بند کر دیا گیا۔
صبح کے وقت کرفیو نافذ کرنے کی کوششوں کے باوجود مظاہرین نے صبح 9 بجے تک مختلف مقامات پر اس کی خلاف ورزی شروع کر دی اور ایک گھنٹے بعد لاکھوں لوگ ڈھاکہ کی سڑکوں پر پہنچ چکے تھے۔
مختلف ایجنسیوں کے اعلیٰ سطح کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ صبح 10.30 بجے کے قریب تینوں مسلح افواج، آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہان اور انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) کو وزیراعظم کی رہائش گاہ پر طلب کیا گیا تھا۔
حسینہ واجد نے سیکیورٹی فورسز کی صورت حال پر قابو پانے میں ناکامی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ وہ مظاہرین کے ساتھ سختی کیوں نہیں کرتے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج کی بکتر بند گاڑیوں پر چڑھ کر پینٹنگ کر رہے ہیں۔
حسینہ واجد نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ان عہدیداروں پر بھروسہ کیا تھا اور اسی لیے انہیں ان کے اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا تھا۔
جس پر انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) نے انکشاف کیا کہ صورتحال اس حد تک بڑھ گئی ہے جہاں پولیس کے لیے ایک طویل عرصے تک اس طرح کی سختی کو برقرار رکھنا ناممکن ہوگا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اعلیٰ حکام نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ صرف طاقت کے ذریعے صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکتا لیکن شیخ حسینہ اسے ماننے کو تیار نہیں تھیں۔
بہن اور بیٹے نے فون پر حسینہ کو بنگلہ دیش چھوڑنے پر آمادہ کیا
یہ دیکھ کر کہ وہ حسینہ واجد کو صورتحال کی سنگینی کے بارے نہیں سمجھا سکے، کچھ عہدیداروں نے ان کی چھوٹی بہن ریحانہ سے الگ کمرے میں ملاقات کی۔
انہوں نے ان پر زور دیا کہ وہ حسینہ کو صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کریں، جس کے بعد ریحانہ نے اپنی بڑی بہن سے بات کی لیکن حسینہ واجد پھر بھی پرعزم اور غیر مطمئن رہیں۔
اس کے بعد ایک سینئر عہدیدار نے حسینہ واجد کے بیٹے، سجیب واجد جوئے سے بھی بات کی، جو بیرون ملک مقیم ہیں لیکن وہ بنگلہ دیش کے وزیراعظم کے سرکاری مشیر تھے۔
رپورٹ کے مطابق سجیب نے پھر اپنی والدہ حسینہ سے بات کی جس کے بعد وہ مستعفی ہونے پر آخر کار راضی ہوگئیں۔
اس دوران ملک چھوڑنے کے لیے ہوائی جہاز میں سوار ہونے سے پہلے، حسینہ واجد نے قوم کے لیے ایک الوداعی تقریر ریکارڈ کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی جو پوری نہ ہوئی۔
اس وقت تک، انٹیلی جنس رپورٹس نے بتایا کہ متعدد طلبا شاہ باغ اور اترا کے علاقوں سے گونوبھوبن کی طرف مارچ کر رہے تھے اور اندازہ لگایا گیا تھا کہ لوگوں کا سیلاب 45 منٹ میں گونوبھوبن تک پہنچ سکتا ہے۔
صورتحال کی عجلت کو دیکھتے ہوئے شیخ حسینہ کے پاس وقت نہیں تھا کہ وہ اپنی مطلوبہ تقریر ریکارڈ کر سکیں، چنانچنہ فوج نے انہیں روانگی کی تیاری کے لیے 45 منٹ کا وقت دیا۔
جس کے بعد شیخ حسینہ اپنی چھوٹی بہن ریحانہ کے ساتھ اپنی سرکاری رہائش گاہ سے متصل تیجگاؤں ایئر بیس کے ہیلی پیڈ پر پہنچیں جہاں ان کا کچھ سامان جہاز پر لدا ہوا تھا۔
شیخ حسینہ نے اس کے بعد صدر کے گھر بونگوبھوبن پہنچ کر اپنا رسمی استعفیٰ دے دیا، جس سے بنگلہ دیش میں ان کی 15 سالہ طویل حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔
تاہم، شیخ حسینہ کی رخصتی شاید ایک دور کا خاتمہ ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے لیے ایک غیر یقینی اور پر امید باب کا آغاز ہے، کیونکہ اس خلا نے اب بہت سے امکانات کو کھول دیا ہے۔
شیخ حسینہ فرار ہونے والی بنگلہ دیش کی پہلی اعلیٰ ترین رہنما ہیں اور ڈھاکہ میں ان کے آخری گھنٹے اتنے ہی ڈرامائی تھے جتنے ان کے اقتدار میں آنے کے تھے۔
-
اسکینڈلز 5 گھنٹے پہلے
شادی اور ماں بننے سے متعلق ایشوریا کا 29 سال پُرانا بیان وائرل
-
دلچسپ و خاص 5 گھنٹے پہلے
اہرامِ مصر کے اوپر سیٹلائٹس میں خلل کی وجہ سامنے آگئی
-
پاکستان 5 گھنٹے پہلے
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان
-
دلچسپ و خاص 6 گھنٹے پہلے
شوہر کی سالگرہ پر ملالہ کا محبت بھرا پیغام