صرف ایک میڈل جیت کر پاکستان اولمپک میں بھارت سے آگےکیسے؟
پاکستان 53ویں جبکہ بھارت 63ویں نمبر پر موجود۔
اولمپکس 2024 میں جہاں جیولین تھرو کے مقابلے میں ارشد ندیم نے ریکارڈ بنا کر گولڈ میڈل جیتا وہیں پاکستان کے لیے ایک اور منفرد اعزاز بھی حاصل کرلیا۔
اولمپکس کے لیے پاکستانی دستے میں صرف 7 کھلاڑیوں کی شمولیت نے نہ صرف عوامی ردِ عمل کو جنم دیا تھا بلکہ غیر ملکی کمنٹیٹرز بھی 24 کروڑ کی آبادی میں سے 7 کھلاڑیوں کے پہنچنے کا مذاق اڑاتے نظر آئے۔
تاہم صرف ایک پاکستانی ایٹھلیٹ ارشد ندیم نے پاکستان کو وہ مقام دلوا دیا جو بھارت کے دستے میں 16 کھیلوں کے 117 کھلاڑی بھی نہیں کر پائے۔
13 ویں دن کے ایونٹس کے اختتام کے بعد پاکستان مردوں کے جیولن تھرو فائنل میں اپنے واحد طلائی تمغے کی بدولت ٹیبل میں 53 ویں نمبر پر تھا۔
جبکہ دوسری جانب بھارتی ایک چاندی اور 4 کانسی کے تمغوں کے ساتھ 64 ویں نمبر پر نظر آیا۔
پیرس گیمز میں پاکستان سے زیادہ تمغے حاصل کرنے کے باوجود بھارت آفیشل درجہ بندی میں اپنے پڑوسی سے 11 درجے نیچے ہے۔
جس کی وجہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کا منتخب کردہ درجہ بندی نظام ہے
اولمپک کھیلوں میں ممالک کی درجہ بندی کے حساب سے کامیابی کا تعین کرنے کا طریقہ جیتنے والے طلائی تمغوں کی تعداد کی بنیاد پر کرنے کا حکم ہے۔
یہاں تک کہ اگر کسی قوم کے پاس چاندی یا کانسی کے 10 تمغے ہوں تو بھی اسے سونے کے تمغے سے کم درجہ دیا جائے گا۔
چاندی اور کانسی کے تمغوں کی تعداد صرف اس وقت زیر غور لائی جاتی ہے جب جیتنے والے طلائی تمغوں کی تعداد پر دو ممالک کے درمیان برابری ہو۔
مردوں کے جیولین تھرو کے فائنل میں ارشد نے 40 برس بعد ملک کا پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا جبکہ اپنے شاندار تھرو سے ایک نیا اولمپک ریکارڈ بھی قائم کیا۔
پاکستان نے پیرس گیمز تک کبھی انفرادی اولمپک گولڈ میڈل نہیں جیتا تھا جہاں ارشد نے بھارت کے جیولین تھرور ہیرو نیرج چوپڑ کو شکست دی تھی۔
پاکستان کی اولمپک تاریخ میں اس کے نام پر کل 3 گولڈ میڈل تھے اور یہ تینوں ہی ہاکی کے میدان سے سال 1960، 1968 اور 1984 میں آئے تھے۔
پاکستان کی تاریخ میں صرف دو ایتھلیٹس نے کسی بھی قسم کے انفرادی اولمپک تمغے جیتے تھے اور سال 1960 میں ریسلنگ اور 1988 میں باکسنگ، دونوں مرتبہ کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔
پاکستان نے آخری بار بارسلونا میں 1992 کے اولمپکس میں اولمپک تمغہ (کانسی) جیتا تھا اور یہ بھی ہاکی فیلڈ میں ملا تھا۔