پاکستان

عمران خان کا آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بننا مشکل کیوں؟

ماضی میں وہ بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے چانسلر رہ چکے ہیں۔

Web Desk

عمران خان کا آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بننا مشکل کیوں؟

ماضی میں وہ بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے چانسلر رہ چکے ہیں۔

شکایات کے بعد انہوں نے بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔
شکایات کے بعد انہوں نے بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔

جیل میں قید سابق وزیراعظم اورپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نیازی نے برطانوی کی قدیم اور معتبر درسگاہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے انتخاب کے لیے کاغذات جمع کروائے ہیں۔

لیکن کیا آپ جانتے  ہیں کہ عمران خان اس سے سے قبل بھی ایک برطانوی یونیورسٹی کے چانسلر رہ چکے ہیں، لیکن متعدد شکایات کے بعد انہیں یہ عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔

معروف صحافی عمر چیمہ کے ایک کالم میں بتایا کہ عمران خان بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے چانسلر بھی رہ چکے ہیں لیکن عہدے کی معیاد مکمل ہونے سے قبل ہی وہ یہ عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے  تھے۔

عمران خان یہ عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ طلبہ کے دباؤ میں کیا تھا جنہوں نے چانسلر کی گریجویشن کی تقریبات سے مستقل غیر حاضری پر احتجاج کیا تھا۔

عمران خان نے چانسلر کا عہدہ 2005 میں سنبھالا تھا لیکن 2010 کے بعد سے وہ یونیورسٹی نہیں گئے تھے۔

بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹی کو پروموٹ کرنے کے علاوہ ان کی ذمہ داریوں میں یہ کام بھی شامل تھا کہ سال میں دو مرتبہ طلبہ کو ڈگری سے نوازیں۔ یہ تقریب پانچ دن پر مشتمل ہوتی ہے۔

26 فروری 2014 کو یونیورسٹی آف بریڈ فورڈ یونین نے سال2010 کے بعد سے ہر گریجویشن تقریب سے عمران خان کی غیر حاضری پر انہیں عہدے سے ہٹانے کی تحریک پیش کی تھی۔

تاہم تحریک پر ووٹنگ سے قبل ہی عمران خان نے 30 نومبر 2014 کو عہدہ چھوڑ دینا کا اعلان کردیا تھا، انہوں نے غیر حاضری کیلئے بڑھتی سیاسی سرگرمیوں اور ڈونیشن جمع کرنے سے جڑی مصروفیات کا حوالہ دیا۔

اس وقت عمران خان جیل میں قید ہیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدے کیلئے وضع کردہ ذمہ داریوں میں لکھا ہے کہ چانسلر کو ہمہ وقت پورے سال کے دوران قابل رسائی رہنا ہوگا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا عہدہ خالصتاً رسمی نوعیت کا ہے اور کئی اہم تقاریب کی صدارت کا کام چانسلر ہی کرتا ہے، اس کے علاوہ چانسلر کو ملکی و غیر ملکی تقریبات میں یونیورسٹی کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے علاوہ مشاورتی اور فنڈ ریزنگ کے کام بھی کرنا ہوتے ہیں۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عمران خان ایک آزاد شخص ہیں تو ایسی صورت میں بھی وہ یونیورسٹی کیلئے ضروری کام نہیں کر پائیں گے، غور کریں تو بحیثیت سیاست دان، یونیورسٹی چانسلر اور فلاحی کام کاج میں مصروف شخصیت ان کے کام کاج میں تضادات پیدا ہوں گے۔

اس مرتبہ یونیورسٹی نے اپنی پالیسی تبدیل کر دی ہے جس سے لوگ یہ اندازے ہی لگا رہے ہیں کہ کون الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیا جائے گا۔

نئی پالیسی کے مطابق جب بھی کوئی امیدوار الیکشن لڑنے کیلئے درخواست دے گا تو پہلے اس کا جائزہ چانسلر کی الیکشن کمیٹی کے نام سے ایک کمیٹی لے گی جو طے کرے گی کہ آیا امیدوار ضوابط کے دائرے میں آتا ہے یا اس کا نام فہرست سے باہر رکھا جائے۔

فہرست سے خارج کرنے والا معیار عمران خان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ وہ سرونگ رکن ہیں اور نہ ہی منتخب لیجسلیچر کیلئے منتخب امیدوار۔ یہ وہ واحد شق ہے جو عمران خان کو الیکشن سے باہر رکھ سکتی ہے۔

اس کے علاوہ بھی دیکھا جائے تو آکسفورڈ یونیورسٹی سیاستدانوں کو چانسلر کے عہدے کیلئے الیکشن لڑنے سے روکتی ہے۔

رواں سال اپریل میں یونیورسٹی کے رجسٹرار کے ذریعہ آکسفورڈ کے ماہرین تعلیم کو بھیجی گئی ایک ای میل (جسے ٹیلیگراف اخبار کو لیک کیا گیا) میں بتایا گیا تھا کہ ارکان اسمبلی یا سیاست میں سرگرم افراد کو اگلا چانسلر بننے سے روکا جائے گا۔

اس اقدام پر یونیورسٹی پر تنقید بھی ہوئی کیونکہ 15ویں صدی سے یہ عہدہ سیاسی پس منظر رکھنے والے افراد نے ہی حاصل کیا تھا۔ 

اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے یونیورسٹی نے کہا تھا کہ نئے قواعد ان افراد پر لاگو ہونا ہیں جو بحیثیت یونیورسٹی چانسلر پارلیمنٹ کا رکن بننے کی امید رکھتے ہیں یا رکن بننا چاہتے ہیں۔

تازہ ترین