پی ٹی آئی میں عمران خان کی جگہ کون لینا چاہتا ہے؟
مسلم لیگ (ن) کے بڑے نام پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے خواہشمند
رہنما مسلم لیگ (ن) خواجہ آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ علی امین گنڈاپور خود بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جگہ لینا چاہتے ہیں، ان کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے ہیں، مگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ یہ رابطے انکے کام آئیں گے'۔
خواجہ آصف کا ماننا ہے کہ 'پی ٹی آئی میں یہ سب لوگ ایک دوسرے کو استعمال کر رہے ہیں، پی ٹی آئی کی قیادت، بالخصوص خیبرپختونخوا کے رہنما نہیں چاہتے ہیں کہ عمران خان جیل سے باہر آئیں'۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'علی امین گنڈاپور چار دیواری میں الگ زبان استعمال کرتے ہیں اور اسٹیج پر آکر مولا جٹ بن جاتے ہیں'۔
خواجہ آصف نے یہ تبصرہ کیوں کیا؟ ان کے اس دعوے میں کتنی جان ہے؟ سینئر کالم نگار منصور آفاق نے اپنے تازہ کالم میں خواجہ آصف کے اس بیان کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔
منصور آفاق لکھتے ہیں کہ خواجہ آصف کے بیان میں جو سب سے اہم بات ہے وہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جگہ خالی ہونے کی بات ہے لیکن ظاہر ہے کہ عمران خان کی جگہ تب ہی کوئی شخص لے سکتا ہے جب وہ جگہ خالی ہو۔
منصور آفاق کے بقول جو کچھ نظر آرہا ہے وہ خواجہ آصف کے بیان کے بالکل برعکس ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ صرف 2، 3 ماہ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارہ ہونگے، ان کی جنبشِ ابرو پر گلشن کا کاروبار چلنے لگے گا، بادِ نو بہار گلوں میں رنگ بھرے گی۔
اپنے کالم میں منصور آفاق نے مزید لکھا کہ 'جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خیبرپختونخوا کے رہنما نہیں چاہتے کہ بانی پی ٹی آئی جیل سے باہر آئیں تویہ بھی خواجہ آصف کی خواہش سے زیادہ کچھ نہیں، پی ٹی آئی کی کوئی لیڈر شپ بھی عمران خان کے بغیر کچھ نہیں۔ ابھی ورکرز نے عمرایوب کے ساتھ کیا کیا۔ ہم سب نے دیکھا کہ انہیں پی ٹی آئی سیکریٹری شپ سے مستعفی ہونا پڑا اور سلمان اکرم راجہ کو نیا سیکرٹری بنا دیا گیا'۔
مسلم لیگ (ن) کے بڑے نام پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے خواہشمند
منصور آفاق نے اپنے کالم میں بڑی خبر دیتے ہوئے کہا کہ 'جہاں تک پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کا تعلق ہے تو اس وقت ن لیگ کے بڑے اہم نام پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں مگر رکاوٹ یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں صرف 2 لوگ ہیں۔ ایک بانی پی ٹی آئی اور دوسرے پی ٹی آئی ورکرز۔ سو کسی آنے والے کو اپنی جگہ اسی طرح بنانی پڑے گی جیسے شیر افضل مروت یا گوہر علی خان نے بنائی ہے اور یہ آسان راستہ نہیں'۔
کالم نگار کی رائے ہے کہ 'اتنی قربانیوں اور اتنی محنت کے باوجود پی ٹی آئی کا ایک حلقہ شیر افضل مروت کے خلاف رہا ہے۔ اگر اسے عمران خان کی حمایت نہ حاصل ہوتی تو کبھی کا پی ٹی آئی سے فارغ ہو چکا ہوتا اور پی ٹی آئی ورکرز اتنے سخت ہیں کہ ایک ذرا سی غلطی کے سبب ابھی تک فواد چوہدری کو معاف کرنے پر تیار نہیں، حالانکہ اس کی قربانیاں کوئی کم نہیں'۔
کالم کے آخر میں منصور آفاق نے واضح کردیا کہ 'اس وقت اگر ورکرز کے نزدیک کسی کی عزت ہے تو وہ شاہ محمود قریشی ہیں، پرویز الہٰی ہیں، یاسمین راشد ہیں، عمر سرفراز چیمہ ہیں، محمود الرشید ہیں، اعجاز چوہدری ہیں یا ایسے کچھ اور لوگ جو ابھی جیلوں میں ہیں'۔
عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے ہونے کی پیشگوئی کے ساتھ ساتھ سینئر کالم نگار نے مسلم لیگ (ن) کی اہم وکٹیں گرنے کی خبر بھی دیدی ہے، لیکن آخر حکمراں جماعت کے یہ کونسے بڑے نام ہیں جو پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے خواہشمند ہیں؟ کمنٹ سیکشن میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے گا۔