عمران خان باز نہ آئے، ایک اور متنازع ایکس پوسٹ پر ہنگامہ
پوسٹ میں اعلیٰ عہدیداروں کو لندن پلان کا حصہ قرار دیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے کی گئی متنازع پوسٹ نے ہنگامہ کھڑا کردیا، جس پر حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے آگئیں۔
پی ٹی آئی کے بانی ایک سال سے جیل میں ہیں اور ان کی پارٹی کے ایک رہنما کے مطابق ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر جو بھی پوسٹ کیا گیا وہ عمران خان کی منظوری سے کیا گیا لیکن اس سوال کا بہتر جواب عمران خان دے سکتے ہیں کہ یہ اکاؤنٹ کون چلا رہا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ بہت ممکن ہے کہ جس شخص کو ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کرنے کا اختیار ہے وہ پاکستان میں نہ ہو لیکن کوئی نہیں جانتا کہ اس ہینڈل تک کس کو رسائی حاصل ہے، انہوں نے مزید بتایا کہ ان کا اکاؤنٹ یقینی طور پر ہیک نہیں تھا۔
خیال رہے کہ جیسے ہی عمران خان ہفتہ کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی جانب سے اپنے ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر پوسٹ کردہ متنازع ریمارکس کی تحقیقات میں شامل ہوئے، ان کے سوشل میڈیا ہینڈل پر ایک اور متنازع بیان شیئر کیا گیا۔
اس بیان میں اعلیٰ عہدیداروں پر نام نہاد ’لندن پلان‘ کے تحت قانون کی حکمرانی پر سمجھوتہ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
جیل سے ان کے ’قوم کے نام پیغام‘ نے حکام کو ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے پر آمادہ کردیا تھا لیکن گریز کرنے کے بجائے جمعہ اور ہفتہ کو اسی طرح کی دو مزید پوسٹس شائع کی گئیں، یہ تمام پوسٹس حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ اور بنگلہ دیش کے قیام میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے متعلق تھیں۔
پوسٹ میں عمران خان نے الزام لگایا کہ 'چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں، چیف جسٹس، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق ’لندن پلان‘ کا حصہ تھے جس کے تمام کردار بے ایمان تھے'۔
انہوں نے الزام لگایا کہ 'چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس لیے توسیع دی جارہی ہے کیونکہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انتخابی دھاندلی کے معاملے میں حکومت کو احتساب سے تحفظ فراہم کررہے تھے'۔
پی ٹی آئی رہنما نے دعویٰ کیا کہ 'ملک اس وقت یحییٰ خان (مارشل لا ڈکٹیٹر) کی حکومت کا دوبارہ سامنا کر رہا ہے، جنرل یحییٰ خان نے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے خلاف آپریشن کیا، یحییٰ خان پارٹ ٹو وہی کر رہے ہیں اور ملکی اداروں کو تباہ کر رہے ہیں'۔
پوسٹس میں ملک سے عسکریت پسندی کے خاتمے میں فوجی آپریشنز کے کردار پر بھی سوال اٹھایا گیا اور کہا گیا کہ فوجی آپریشن امن قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ پالیسی اپنے آپ میں ناقص ہے اور اس پر عمل درآمد ناممکن ہے۔
علاوہ ازیں سابق وزیراعظم نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کے بیان کی حمایت کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ مذاکرات کے لیے کابل جائیں گے اور کہا کہ اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو انہیں افغانستان کے ساتھ مذاکرات کی اجازت ضرور دیتا۔
قومی اسمبلی میں ردِ عمل
قومی اسمبلی کے اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری اور خواجہ آصف نے اپنے خطاب کے دوران عمران خان کی پوسٹ پر اُنہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ کل رات عمران خان نے توہینِ عدالت کی اور آرمی چیف پر الزامات لگائے۔ اگر یہ بیان عمران خان نے دیا ہے تو آئین کے تحت انہیں نتائج بھگتنے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ’قیدی نمبر 804 نے اپنی سیاست کو چمکانے اور عدالتوں سے ریلیف لینے کے لیے ہر آئینی ادارے پر حملہ کیا ہے۔کل رات آئینی اداروں پر ایک بار پھر حملہ کیا گیا ہے جو دراصل جمہوریت پر حملہ ہے۔‘
دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئےکہا کہ پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے جلسے میں علیحدگی پسندوں کی زبان بولی۔
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان نے جو پیغام اپنی پوسٹ کے ذریعے دیا وہ ان کی ملک دشمنی پالیسیوں کا عکاس ہے۔‘
خواجہ آصف نے کہا کہ’یحییٰ خان کو آرمی چیف ایوب خان نے بنایا تھا۔ ایسے شخص کو آرمی چیف بنایا گیا جس نے ملک توڑ دیا جن لوگوں نے بھی ملک کے حصے کرنے کی کوشش کی انہوں نے بھی اتنی سخت زبان استعمال نہیں کی جتنی عمران خان استعمال کر رہے ہیں۔‘
خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے بانی نے اپنی متنازع سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے تنازع کھڑا کردیا تھا، جو ایک ’مجاز‘ شخص کے ذریعے شائع کی جاتی ہیں۔
رواں سال جون میں ایف آئی اے نے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو 1971 کی جنگ پر ’ناگوار‘ پوسٹ کی روشنی میں اپنے اکاؤنٹ کے ’غلط استعمال‘ کے لیے نوٹس جاری کیے تھے۔