اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی میں عمران خان کی شکست ضروری کیوں؟
اسٹیبلشمنٹ کو اُنکی من مانی کا راستہ دینا ہوگا، حفیظ اللہ نیازی
ملک بھر میں آجکل ایک اور ایکسٹینشن کی افواہیں زور پکڑ رہی ہیں، ساتھ ہی حکومت نے آئینی ترامیم کا شوشہ بھی چھوڑ دیا ہے، دوسری جانب عمران خان بمقابلہ اسٹیلشمنٹ تناؤ بھی برقرار ہے، ایسے میں بعض لوگ ایک ایسے بحران کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ جس کے نتیجے میں آئین باقی رہے گا یا ریاست۔
سینئر کالم نگار حفیظ اللہ نیازی اپنے تازہ کالم میں لکھتے ہیں کہ 'قاضی فائز عیسیٰ کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائیگا۔ انکی کمی بیشی کا اگلے جہاں میں کفارہ اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی پہلا جہاد بغیر کسی وجہ انکے خلاف ہی تو شروع کیا۔ سالوں عمرانی سوشل میڈیا نے بغیر وجہ قاضی عیسیٰ کی ٹرولنگ اور انکے خلاف دشنام طرازی جاری رکھی'۔
کالم نگار نے یاددہانی کروائی کہ ایک ایسا چیف جسٹس گلزار بھی آیا جس نے قاضی عیسیٰ کو حکومتی مقدمات سے علیحدہ رکھنے پر "تاریخی فیصلہ" صادر فرمایا۔ یقینا عمران خان کو اس احساس جرم نے گھائل کر رکھا ہوگا کہ جنرل عاصم منیر اور قاضی فائز کیخلاف بغیر وجہ بہتانوں، جھوٹ کا انبار لگایا، جبکہ وہ ابھی اپنے موجودہ عہدوں پر فائز نہیں تھے۔
بقول حفیظ اللہ نیازی 'قاضی صاحب ایک غیر معمولی، بے مثال شخصیت ہیں جنہوں نے زندگی جرات اور آئین و قانون کے تابع گزاری۔ موجودہ عدلیہ میں قاضی عیسیٰ ہی واحد اُمید تھے جو الیکشن 2024 کروانے کی جرأت رکھتے تھے، اسٹیبلشمنٹ کا دور دور تک الیکشن کرانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، دھڑکا لاحق تھا کہ الیکشن روکنے کیلئے ایمرجنسی لگا ئیں گے اور قاضی صاحب کی چھٹی کروا دی جائیگی تاکہ الیکشن نہ ہو پائے، 8 فروری الیکشن کا سہرا ڈنکے کی چوٹ پر قاضی عیسیٰ کے سر باندھوں گا، ماضی قریب میں جسٹس بندیال نے 13مئی 2023کو پنجاب میں الیکشن کروانے کی ٹھانی تو نہ الیکشن ہوئے نہ ہی استعفیٰ آیا'۔
'8 فروری کا الیکشن PTI کو نئی طاقت دے گیا'
تحریک انصاف کے شدید ناقد حفیظ اللہ نیازی نے اپنے کالم میں اعتراف کیا کہ '8 فروری کا الیکشن تحریک انصاف کو نئی طاقت دے گیا، عمران خان کو اگر اگلے جہاں کی معمولی سی بھی فکر ہے تو جسٹس قاضی اور جنرل عاصم سے خلوص دل سے معافی مانگنی چاہیے تاکہ دونوں دل کی گہرائیوں سے آپ کو معاف کر دیں وگرنہ اللہ کے سامنے پیشی پر مشکل ہو گی'۔
انہوں نے توجہ دلائی کہ 'عمران خان جب اقتدار سے علیحدہ ہوا تو اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا، وطن عزیز میں سیاسی بے یقینی کی کیفیت ہو گئی۔ اس لڑائی میں آج عدلیہ کا ایک حصہ عمران خان کی حمایت میں خم ٹھونک چکا ہے جبکہ دوسرا حصہ آئین اور قانون کی بالا دستی کیلئے ڈٹ چکا ہے، بائی ڈیفالٹ اسٹیبلشمنٹ فائدہ میں ہے'۔
کالم نگار نے لکھا کہ 'آج ہی چیف جسٹس قاضی نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور جسٹس منیب اختر کے بارے 11حقائق میڈیاپر سامنے لائے ہیں۔ ذاتی بدقسمتی کہ جسٹس قاضی اور جسٹس منصور دونوں کو غیر معمولی اور بے مثال جج سمجھتا ہوں۔ ان دونوں کا آمنے سامنے آنا، عدالتی سے زیادہ قومی سانحہ ہے'۔
حفیظ اللہ نیازی نے سوال کیا کہ 'کیا ہماری عدلیہ شعوری یا لاشعوری طور پر سمجھنے سے قاصر ہے کہ سیاسی تناؤ، قطبیت (POLARIZATION) میں کسی فیصلے کو طاقتور قطعاً خاطر میں نہیں لائیں گے؟'
اپنے کالم میں حفیظ اللہ نیازی نے واضح کیا کہ 'عمران خان بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ، دونوں اطراف سے عدلیہ بھی حصہ بقدرجثہ ڈال چکی ہے۔ لڑائی جو مرضی رخ اختیار کرے، بھاری دل سے اعلان کرتا ہوں کہ سیاسی طاقت یا عدالتی طاقت جب بھی عسکری طاقت سے ٹکرائی، پاش پاش رہی۔ خدانخواستہ سیاسی طاقت یا عدلیہ کسی طور عسکری طاقت کو دھینگا مشتی میں پچھاڑ دے گی تو مان لیں ریاست اپنا وجود کھو بیٹھے گی'۔
'اسٹیبلشمنٹ کو اُنکی من مانی کا راستہ دینا ہوگا'
حفیظ اللہ نیازی نے اسٹیبلشمنٹ کے پلڑے میں وزن ڈالتے ہوئے لکھا کہ 'آئین کے نفاذ کیلئے ایک ریاست چاہیے، اگر ریاست نہ رہی تو آئین کا کیا کرنا ہے، خلوص دل اور نیک نیتی سے سمجھتا ہوں کہ ریاست بچانا ہے تو بغیر الفاظ چبائے اسٹیبلشمنٹ کو اُنکی من مانی کا راستہ دینا ہوگا، ٹکراؤ یا تصادم پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کے وارے میں ہے، مملکت متحمل نہیں ہو سکتی'۔
کالم نگار کے بقول 'اگر روڑے نہ اٹکائے گئے تو اسٹیبلشمنٹ زیادہ سے زیادہ "رول آف دی گیم" کو ملحوظ خاطر رکھ کر فتح یاب ہونا پسند فرمائے گی۔ انکی فتح یابی، عمران خان کی شکست سے نتھی ہے'۔
کالم کے اختتام میں حفیظ اللہ نیازی نے متنبہ کیا کہ 'کیا پاکستان کی خاطر عمران خان بغیر فساد جھگڑا کے شکست اپنی مان لے گا اور ہمیشہ کیلئے نام پیدا کر جائے گا؟ حالیہ آئینی ترامیم، اسٹیبلشمنٹ کیطرف سے "رولز آف دی گیم" کے مطابق اپنی مقصد براری ہے۔ پلیز ان کو راستہ دیں اور ملک بچائیں۔ انشاء اللہ آئین بھی بچ جائیگا اور اسلامی نظریاتی مملکت کی بھی گنجائش بھی موجود رہے گی، راستہ دیں وگرنہ زور زبردستی RIGHT OF WAY پچھتر سال سے اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی تو ہے'۔
کالم نگار کی رائے سے آپ کس حد تک اتفاق کرتے ہیں؟ کمنٹ سیکشن میں ضرور بتائیے گا۔
-
کھیل 6 منٹ پہلے
سابق بھارتی ریسلر ونیش پھوگاٹ ڈیبیو الیکشن میں کامیاب
-
ٹیکنالوجی 28 منٹ پہلے
کھانسنے اور چھینکنے سے بیماریوں کا پتا لگانے والا اے آئی ٹول تیار
-
اسکینڈلز 32 منٹ پہلے
حبا بخاری نے حمل کیلئے شہزاد حکیم سے علاج کروایا؟
-
فلم / ٹی وی 54 منٹ پہلے
رنویر سنگھ کا 20 سال چھوٹی اداکارہ کیساتھ رومانس، مداح برہم