وائرل اسٹوریز

'بدقسمتی سے ڈاکٹر ذاکر نائیک میرا سوال سمجھ نہیں سکے'

پشتون لڑکی کے سوال پر ذاکر نائیک کا جواب نئے تنازع کا سبب بن گیا

Web Desk

'بدقسمتی سے ڈاکٹر ذاکر نائیک میرا سوال سمجھ نہیں سکے'

پشتون لڑکی کے سوال پر ذاکر نائیک کا جواب نئے تنازع کا سبب بن گیا

(اسکرین گریب)
(اسکرین گریب)

دورۂ پاکستان پر آئے عالمی شہرت یافتہ معروف مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی مختلف تقاریب میں گفتگو اور چند مخصوص موضوعات کے حوالے سے اُن کی متنازع رائے اِن دنوں سوشل میڈیا پر زیربحث ہے۔

ایک طبقہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پاکستان آمد اور مختلف معاملات پر اُن کے مؤقف کی تائید و حمایت کر رہا ہے تو وہیں چند مخصوص لوگ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ہر دوسرے بیان کو اپنے مطلب کا رنگ دیکر متنازع بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

حال ہی میں کراچی میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لیکچر کے دوران خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے سوال پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کا جواب نئے تنازع کا سبب بن چکے ہے۔

سوشل میڈیا پر بعض لوگ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے جواب اور رویے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ بعض لوگ خاتون کے سوال کو ’تضاد پر مبنی‘ قرار دیکر اُن سے معافی مانگنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

ہوا کیا تھا؟

ڈاکٹر ذاکر نائیک کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی گئی اِس ویڈیو کا عنوان تھا ’پٹھان لڑکی کا ڈاکٹر ذاکر نائیک سے پاکستانی معاشرے کے بارے میں تضاد پر مبنی سوال‘

اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گورنر ہاؤس کراچی میں ہونے والے سیشن کے دوران خاتون اپنے علاقے کا نام بتاتے ہوئے وضاحت کرتی ہیں کہ اُن کی اُردو اتنی اچھی نہیں ہے۔

بعدازاں وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے سوال کرتی ہیں کہ 'میں جہاں سے تعلق رکھتی ہوں وہ مکمل اسلامی مذہبی معاشرہ ہے جہاں خواتین بلاضرورت گھر سے باہر نہیں جاتیں، تبلیغی اجتماعات بھی ہوچکے ہیں، اگرچہ ہمارے علاقے کا معاشرہ مکمل اسلامی ہے مگر اس کے باوجود وہاں زنا، سود، منشیات اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم (پیڈوفائل) ہوتے ہیں جس کے باعث معاشرہ تباہ ہو رہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟، ہمارے علماء اسکی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ بالخصوص پیڈوفائلز کو'۔

سوال کے جواب میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ ’اُن کے معاشرے میں جہاں سے وہ آئی ہیں وہاں خواتین گھر سے ضرورت کے بنا باہر نہیں نکلتیں، میں بھی گھر سے باہر ضرورت کے بنا نہیں نکلتا ہوں اور مرد کو بھی ضرورت کے بنا گھر کے باہر نہیں نکلنا چاہیے‘۔

پھر ذاکر نائیک نے کہا کہ ’آپ کے سوال میں تضاد ہے، آپ کہتی ہیں معاشرہ اسلامی ہے اور پھر بولتی ہیں کہ وہاں پیڈوفائل (بچوں کے ساتھ جنسی جرائم) ہوتے ہیں‘۔

خاتون نے اپنا سوال دوبارہ سمجھانے کی کوشش کی تو اُن کی بات کاٹتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ ’آپ نے سوال پوچھا، اب آپ ذرا خاموش رہیں گی؟ آپ کا سوال ختم ہو گیا نا؟ میرا جواب سُننا چاہتی ہیں نا آپ؟‘

اس کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائیک نے دوبارہ اپنا مؤقف دہرایا کہ 'آپ کے سوال میں تضاد ہے، آپ نے کہا میرا معاشرہ بہت اسلامی ہے اور میرے معاشرے میں پیڈوفائل ہیں، دونوں میں تضاد ہے، کسی بھی اسلامی ماحول میں پیڈوفائل ہو ہی نہیں سکتا، یا تو آپ کے سوال کا پہلا حصہ غلط ہے یا دوسرا‘۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک نے خاتون سے کہا کہ ’آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ میرا معاشرہ سمجھتا ہے کہ وہ بہت اسلامی ہے تو میں مانوں گا، کبھی بھی کسی پر الزام لگانے سے پہلے 10 بار سوچو، آپ کو معافی مانگنی چاہیے کیونکہ آپ کا سوال غلط ہے‘۔

خاتون نے دوبارہ اپنا سوال سمجھانے کی کوشش کی تو ذاکر نائیک نے کہا کہ ’آپ کو پہلے قبول کرنا پڑے گا کہ آپکا سوال غلط ہے، اگر آپ قبول نہیں کریں گی تو میرا جواب ختم‘۔

خاتون نے وضاحت دی کہ ’ٹھیک ہے سر، میرے سوال کی نوعیت غلط ہے‘۔

اس پر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے پھر سے کہا ’نوعیت غلط نہیں، سوال غلط ہے، آپ غلط ہیں، آپ اپنے معاشرے پر الزام لگا رہی ہیں، معاشرہ اسلامی ہو اور وہاں پیڈوفائل بھی ہوں، اِن دونوں میں سے کوئی ایک بات لازمی غلط ہے، آپ معاشرے پر الزام لگا رہی ہیں اور معافی بھی نہیں مانگ رہیں، غلطی کرنے کے بعد بھی معافی مانگنے کو تیار نہیں‘۔

'میرا سوال صحیح سے سمجھا ہی نہیں گیا'

اس لیکچر کے دوران سوال پوچھنے والی پاکستانی خاتون نے برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی اُردو' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کی جانب سے پوچھے گئے سوال اور اُس پر ڈاکٹر ذاکر کے جواب کا احاطہ کرتی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سے انہیں سوشل میڈیا پر مسلسل ٹرولنگ کا سامنا ہے۔

خاتون کہتی ہیں کہ 'میں کسی تنازع کا حصہ نہیں بننا چاہتی تھیں بلکہ محض رہنمائی چاہتی تھیں مگر مجھے لگتا ہے کہ شاید میرا سوال صحیح سے سمجھا ہی نہیں گیا'۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کوئی مجھے لبرل کہہ رہا ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ میں اپنے علاقے اور قبیلے کا نام بدنام کر رہی ہوں۔ یہ سب غلط ہے۔‘

خاتون نے بتایا کہ وہ پچھلے 10 برسوں سے بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کے مسئلے پر آواز بلند کر رہی ہیں اور ان کا سوال بھی اسی بارے میں تھا۔ ’میں جب بھی اس بارے میں بات کرتی ہوں تو مجھے دھمکیاں ملنا شروع ہو جاتی ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ میں علاقے کا نام بدنام کر رہی ہوں۔ حالانکہ وہ والدین جنھوں نے اس ہیبت ناک جرم کی وجہ سے بیٹوں کو کھویا وہ میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ وہ ایک طویل عرصے سے ذاکر نائیک کے لیکچرز سُن رہی ہیں اور وہ ان سے پوچھنا چاہتی تھیں کہ علما ’اس مسئلے کو لے کر خاموش کیوں ہیں؟‘

انہوں نے کہا کہ ’مجھے لگا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اتنے بڑے انٹرنیشنل عالم ہیں، ان کی بات میں وزن ہو گا اور ہمارے علما کم از کم ان کی بات تو سُنیں گے اور اس پر عمل کریں گے لیکن انھوں نے تو مجھے ہی جھڑک دیا‘۔

خاتون نے بتایا کہ وہ چاہتی ہیں ملک کے علما بچوں کے ساتھ جنسی جرائم میں ملوث لوگوں پر تنقید کریں، ایسے لوگوں کو نہ اپنی بیٹیاں دیں اور نہ انھیں اپنے ہجروں میں دعوت دیں۔ ان لوگوں کا مکمل بائیکاٹ ہونا چاہیے‘۔

انہوں نے واضح کیا کہ 'اس معاملے پر میں معافی نہیں مانگوں گی، بدقسمتی سے شاید ڈاکٹر صاحب میرا سوال سمجھ نہیں سکے‘۔

سوشل میڈیا صارفین کی رائے

واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اِس پر لوگوں کی مختلف آرا سامنے آرہی ہیں۔

ایک صارف نے لکھا کہ ’لڑکی کا سوال غلط نہیں تھا، ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سوال سمجھنے میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے‘۔

ایک اور صارف نے کہا کہ ’ڈاکٹر نائیک پاکستانی معاشرے کو سمجھے نہیں، وہ لڑکی صحیح کہہ رہی تھی‘۔

بعض صارفین نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ 'ڈاکٹر صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں، تصور تو ہمارا غلط ہے جو محض حلیے اور عبادات سے خود کو اسلامی معاشرہ سمجھ لیتے ہیں، حقیقی اسلامی معاشرے میں اخلاقی تربیت لازمی جُز ہوتی ہے'۔

دیگر صارفین کا کہنا تھا کہ 'ڈاکٹر صاحب کا مؤقف درست ہوسکتا ہے لیکن اننا جواب دینے کا انداز بالکل ٹھیک نہیں تھا'۔

تازہ ترین