پاکستان

لاہور؛ نجی کالج میں ریپ کی جھوٹی خبر پھیلانے والی 3 طالبات کون؟

عدالت میں جمع کروائی گئی ایف آئی اے کی رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات

Web Desk

لاہور؛ نجی کالج میں ریپ کی جھوٹی خبر پھیلانے والی 3 طالبات کون؟

عدالت میں جمع کروائی گئی ایف آئی اے کی رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات

(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

لاہور ہائیکورٹ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے لاہور کے نجی کالج میں طالبہ کے ریپ کی جھوٹی خبر سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ جمع کروائی ہے جس میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔

رواں ماہ 14 اکتوبر کو پنجاب کالج کے سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں فرسٹ ایئر کی طالبہ کو ریپ کا نشانہ بنانے کی غیرمصدقہ خبر سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوگئی تھی۔

مبینہ ریپ کی اِس فیک خبر پر طلبہ و طالبات مشتعل ہوکر سٹرکوں پر نکل آگئے تھے، مشتعل طلبہ نے کالج کے اندر اور باہر توڑ پھوڑ کی اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، اس دوران پولیس سے جھڑپوں میں 27 طلبہ زخمی جبکہ کئی طلبہ گرفتار بھی ہوئے تھے۔

بعدازاں واقعے کی تحقیقات کیلئے تشکیل دی گئی حکومتی کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ معاملے کو سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے اچھالا گیا، درحقیقت اس واقعے کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے، ہر پوسٹ سنی سنائی باتوں اور افواہوں پر مبنی تھی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 10 اکتوبر کو ایک بچی کا نام لیا گیا کہ وہ ریپ کا شکار ہوئی ہے لیکن وہ بچی 2 اکتوبر سے اسپتال میں داخل ہے، درحقیقت وہ بچی اپنے گھر میں ہی گر کر بری طرح زخمی ہوئی تھی جس کے بعد سے وہ آئی سی یو میں داخل ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم کی سرابراہی میں 3 رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے، چیف جسٹس نے اس واقعے پر ایف آئی اے کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک آزاد انکوائری کرکے عدالت کو بتائے کہ اس واقعہ کی حقیقت کیا ہے؟

ایف آئی اے کی رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات

میڈیا رپورٹس کے مطابق ذرائع ایف آئی نے بتایا ہے کہ اب 300 صحفحات پر مشتمل رپورٹ لاہور ہائیکورٹ میں جمع کروا دی گئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب کالج میں ریپ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا، ایف آئی اے نے تمام شوائد اکھٹے کیے جو سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے مگر ان میں کچھ بھی حقیقت نہیں تھا، جھوٹی خبر کو بنیاد بنا کر احتجاج کیا گیا، صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر کے بیان کے بعد زیادہ اشتعال انگیزی پھیلی۔

ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ مبینہ ریپ کی جھوٹی خبر پنجاب کالج کی 3 طالبات سے پھیلی، طالبات نے کلاس کی ٹیچر کو بتایا کہ ایک لڑکی کے ساتھ کالج میں ریپ ہوا ہے، جس پر ٹیچر نے ان سے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ ریپ ہوا ہے اور وہ لڑکی کون ہے؟ اس پر طالبات کچھ بتانے سے قاصر رہیں۔

کلاس ٹیچر نے یہ بات کالج کی پرنسپل کو بتائی کہ 3 طالبات کلاس میں یہ بار بار کہہ رہی ہیں کہ ایک لڑکی کا ریپ ہوا ہے، پرنسپل نے ان 3 لڑکیوں سے پوچھا، 3 میں سے ایک لڑکی نور فاطمہ نے بتایا کہ ہم نے یہ سنا ہے کہ کالج میں ریپ ہوا ہے مگر کہاں سے سنا ہے اور وہ لڑکی کون ہے، نہیں جانتیں، اِس پر پرنسپل نے تینوں کو سختی سے منع کیا کہ اب دوبارہ اس طرح کی غلط بات کالج میں نہ کی جائے۔

اگلے روز پنجاب کالج میں مبینہ ریپ کے حوالے سے ایک انسٹا گرام اکاؤنٹ پوسٹ سے شئیر کی گئی جس کے بعد یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی، انسٹا گرام اکاؤنٹ کا تاحال پتا نہیں لگایا جا سکا کیونکہ وہ اکاؤنٹ ڈیلیٹ کردیا گیا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جس لڑکی کا کہا جاتا رہا کہ وہ لڑکی اسپتال میں ہے اس سے بھی پوچھ گچھ کی گئی مگر لڑکی نے بھی بتایا کہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کس طرح سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اس فیک خبر کو پھیلایا گیا اور کون سی جماعت کے لوگ اس میں ملوث ہیں، سب اس رپورٹ میں شامل ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیجز ڈیلیٹ ہونے کے بھی کوئی شوائد نہیں ملے، تمام سی ٹی وی فوٹیجز تاریخ کے ساتھ موجود تھیں، ان میں کہیں بھی اس واقعہ کو نہیں دیکھا گیا۔

تازہ ترین