'کبھی میں کبھی تم' کونسے سبق سکھا کر الوداع کہہ گیا؟
'کبھی میں کبھی تم' نے ناظرین کو انٹرٹینمنٹ ہی نہیں عقل بھی دی
پاکستانی سپر ہٹ ڈراما 'کبھی میں کبھی تم' اپنے خوبصورت اختتام کے ساتھ ناظرین کو ان گنت سبق بھی سکھا گیا۔
'کبھی میں کبھی تم' ایک ایسا ڈراما جسے پاکستان اور بھارت سمیت دیگر ممالک میں بھی بے انتہا شوق سے دیکھا گیا اور اس کی مقبولیت کے آگے کوئی دوسرا ڈراما ٹھہر نہ پایا۔
چار مہینے ٹی وی اسکرینز پر پیر اور منگل کی رات نشر ہونے والے اس ڈرامے کی منفرد کہانی اور تمام ادکاروں کی حقیقت پسند اداکاری اسے سپر ہٹ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی دکھی۔
ہر ایک اداکار نے اس ڈرامے کو کامیاب بنانے کیلئے اپنا سو فیصد دیا اور صرف اسکرپٹ میں لکھے ڈائیلاگز کو پڑھ کر انہیں ادا نہیں کیا بلکہ سپروائز کر کے اسے مزید خاص بنا دیا اور سپروائز کرنے کے بعد کاغذ پر لکھا عام سا جملہ بھی کسی کے دل سے نکلی بات معلوم ہوا اور ناظرین داد دیے بغیر نہ رہ سکے جیسا کہ رباب کا کردار نبھانے والی نعیمہ بٹ کا مشہور ہونے والا ڈائیلاگ 'ویئر واز یور سلف رسپیکٹ ایٹ دیٹ ٹائم ہنی؟'
اس ڈرامے کے صرف ڈائیلاگز ہی نہیں بلکہ گانے بھی شائقینِ موسیقی کو اپنا دیوانہ بنانے میں کامیاب رہے جو ایک یا دو نہیں بلکہ تین ہیں اور کسی ڈرامے کے تین گانوں کا سپر ہٹ ہونا کوئی عام بات نہیں۔
ڈرامے کا اختتام اگرچہ فینز کی پیر اور منگل کی راتوں کو ویران کر گیا لیکن کسی ڈرامے کا اختتام فینز کی خواہش کے مطابق ہوجانے سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتا اور 'کبھی میں کبھی تم' کا اختتام بھی فینز کی خواہش کے عین مطابق ہوا۔
شرجینا اور مصطفیٰ کو موت، غم، نقصان اور غلط فہمیاں کوئی الگ نہ کرسکا اور زندگی کا سفر ساتھ ہی رواں دواں رہا۔
'کبھی میں کبھی تم' نے اپنے ناظرین کو صرف انٹرٹینمٹ ہی مہیا نہیں کی بلکہ چند ایسے سبق بھی سکھا دیے جو خوشگوار انسانی زندگی کے لیے بہت اہم ہیں۔
آئیں ان چند اسباق کی بات کرتے ہیں جو 'کبھی میں کبھی تم' میں چھپائے گئے اور ناظرین کو ہلکے پرائے میں ڈبو کر سمجھائے گئے۔
1۔ کسی رشتے کو بچانے کیلئے بات کرتے رہنا ضروری ہے:
'کبھی میں کبھی تم' میں گفتگو کو بے انتہا اہمیت کا حامل دکھایا گیا اور یہ سمجھایا گیا کہ کسی بھی رشتے میں غلط فہمی آجانے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ ان میں محبت نہیں رہی بلکہ دو ذہن ایک جیسا نہ سوچ پانے کے سبب ایک دوسرے کے خلاف ہوجاتے ہیں اور اسکے خاتمے کیلئے ناراض ہوکر خاموش ہوجانا حل نہیں کہ اگلا خود دل کی بات سمجھ لیگا بلکہ ساتھ بیٹھ کر اپنے دل کا حال بیان کرنے سے غلط فہمی دور ہوتی ہے۔
ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی اپنے مستقبل کے بارے میں ایک دوسرے کو اپنے اپنے خیالات سے آگاہ کریں اور فیوچر پلاننگ الگ ہونے کی صورت میں مل کر درمیانی راہ نکالیں۔
2۔ وقت پر قدر نہ کریں تو وہ چیز کھو جاتی ہے:
ڈرامے میں 'وقت پر قدر' نہ کرنے کے لاتعداد نقصانات دکھائے گئے جن میں سب سے اہم شرجینا اور مصطفیٰ کی ہونے والی اولاد کا نقصان ہے۔
اسی طرح عدیل نے پہلے شرجینا کی قدر نہ کرتے ہوئے پیسوں اور اسٹیٹس کی لالچ میں اپنی باس رُباب سے شادی کی لیکن پھر وہاں بھی وفا نہ نبھا سکا اور رُباب کی قدر نہ کرتے ہوئے اسے بھی کھو دیا جبکہ رُباب نے عدیل سے سچی محبت کی تھی تب بھی ناقدری کو قبول نہ کرسکی۔
3۔ دوست کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں:
ڈرامے میں دوستی کے دو رُخ دکھائے گئے ایک مصطفیٰ کا دوست 'علی' جو لااُبالی ضرور تھا لیکن ہر مشکل وقت میں اس کی مدد کیلئے پیش پیش رہا اور تنہا نہیں چھوڑا جبکہ دوسری طرف رُباب کی بچپن کی سہیلی 'نتاشا' جس نے ساری دنیا چھوڑ کر خنجر رباب کی پیٹھ میں ہی گھونپا۔
رُباب جو خود کو بہت سمجھدار سمجھتی تھی، اپنے بزنس کو بھی سمجھداری سے اکیلے چلا رہی تھی، اپنی محبت عدیل اور بچپن کی سہیلی نتاشا کے ہاتھوں دھوکا کھا گئی کیونکہ یہ وہ رشتے ہوتے ہیں جن پر انسان اندھا اعتماد کرتا ہے اس لیے ان کے ساتھ دماغ نہیں بلکہ دل سے پیش آتا ہے اور اگر یہی رشتے وفادار نہ ہوں تو مقدر دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
4۔ پیسوں سے خوشیاں نہیں خریدی جاسکتیں:
'کبھی میں کبھی تم' میں دو موضوعات شروع سے ساتھ ساتھ چلے ایک محبت اور دوسری دولت۔ عدیل نے آغاز سے ہی صرف پیسوں کو اہمیت دی اور مال و دولت کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ کمپنی میں اہم عہدہ سنبھالنے کے باوجود پیسوں میں ریل پیل کر رہا تھا کیونکہ پیسوں کی لالچ کی کوئی حد ہے ہی نہیں اس لیے حاصل کچھ نہ ہوا اور وہ بھی کھو بیٹھا جو اس نے اپنی محبت نے حاصل کیا تھا۔
اسی طرح مصطفیٰ جو ڈرامے کے آغاز میں پیسوں کو اہمیت نہیں دیتا تھا بلکہ ضرورت پڑنے پر یا تو بڑے بھائی، والد اور دوست سے پیسے مانگ کر یا کوئی نہ کوئی کام کر کے پیسے کما کر کے اپنی ضرورت پوری کرلیتا تھا، پیسوں کے پیچھے ایسا دیوانہ ہوگیا کہ وہ دولت جس شخص کے لیے کمانے کیلئے نکلا تھا اس کو ہی نظر انداز کرتا رہا اور آہستہ آہستہ اس مقام پر پہنچ گیا جہاں اسکے پاس مال و دولت تو بہت تھی لیکن خوشیاں اور محبت اس سے روٹھ گئیں تھیں۔
5۔ والدین کا بچوں میں تفریقی رویہ خود اعتمادی کے خاتمے کی وجہ:
'کبھی میں کبھی تم' میں ایک گھر میں دو بیٹوں کے درمیان والدین کا متضاد رویہ دکھایا گیا۔ جہاں بڑے بیٹے 'عدیل' کو والدین کی سپورٹ اور ہمدردی مکمل طور پر حاصل رہی وہیں چھوٹے بیٹے 'مصطفیٰ' کو بڑے کے مقابلے میں نظر انداز کرتے دکھایا گیا۔
اگرچہ والدین اکثر اپنے بچوں کو ڈانٹ کر انہیں سیدھے راستے پر لانا چاہتے ہیں لیکن ڈرامے میں 'مصطفیٰ' کیلئے محبت کی کمی کو بھی دکھایا گیا البتہ بہن کیلئے دونوں بھائیوں کو برابر دکھایا گیا پر مصطفیٰ کو بہن کی محبت نہیں بلکہ والدین کی محبت کی ضرورت تھی۔
والدین کا یہ رویہ جو پہلے اس گھر میں قابلِ قبول تھا دونوں بیٹوں کی شادی کے بعد جب بہوویں آئیں تو یہ رویہ نفرت کی نظر سے دیکھا جانے لگا اور آہستہ آہستہ ایک ایسی لڑائی کی وجہ بن گیا جس کے بعد وہ خوشیوں سے بھرا گھر ٹوٹ گیا۔
ڈرامے کی آخری قسط میں والد 'افتخار' کا کردار نبھانے والے جاوید شیخ یہ کہتے سنائی دیے کہ 'میں نے زندگی بھر تم میں اور عدیل میں فرق کیا، اسکو مہنگے اسکول میں پڑھایا، تمہیں محلے کے عام اسکول میں، عدیل کو نئی کتابیں دلواتا تھا اور تمہیں سیکنڈ ہینڈ، میں نے تمہیں ہمیشہ نظر انداز کیا جو میری غلطی تھی'۔
6۔ جوائنٹ فیملی میں نہ رہنے کے نقصان:
اگرچہ یہ سبق ڈرامے میں واضح طور پر نہیں دکھایا اور نہ ہی ڈرامے کے اختتام میں شرجینا اور مصطفیٰ کی جانب سے اس بات کا اعتراف کرتے دکھایا گیا لیکن ڈرامے میں یہ سبق پوشیدہ ضرور تھا کیونکہ جب تک شرجینا سسرال میں رہ رہی تھی کتنی ہی مشکلات کے باوجود مصطفیٰ سے بھی لڑائی جھگڑے اس نوعیت کے نہیں ہوئے جو اکیلے زندگی گزارنے پر پیش آئے کیونکہ مصطفیٰ کو روک ٹوک کرنے والے والدین نظر رکھنے کیلئے موجود نہیں تھے۔
شرجینا اپنی سی کوشش کرتی رہی کہ مصطفیٰ کو محبت کے ساتھ سمجھائے لیکن مصطفیٰ کو حقیقت کا آئینہ دکھانے والا کوئی بڑا موجود نہیں تھا اور اسی سبب اس کو ایک بڑے نقصان نے عقل دی جس کو بڑے بہت پہلے دیکھ کر وقت پر روک لیتے ہیں۔
دوسری جانب شرجینا کی بھی طبیعت اسی لیے بگڑتی چلی گئی کہ کوئی ساتھ تھا ہی نہیں اور وہ اپنی عقل سے چلتی رہی، جو صحیح لگا وہی کرتی رہی، سسرال اور والدین دونوں کی مدد نہیں لی جس کے سبب ہونے والے نقصان نے دونوں کے رشتے میں بھی دراڑ ڈال دی۔
-
انفوٹینمنٹ 5 گھنٹے پہلے
صرف 51 روپےفیس لینے والا بالی وڈ اداکار کون ؟
-
فلم / ٹی وی 5 گھنٹے پہلے
’پشپا‘ کیلئے پہلی چوائس اللو ارجن نہیں تو پھر کون؟
-
دلچسپ و خاص 6 گھنٹے پہلے
کرسمس پر خوشیاں بانٹنے والے سانتا کلاز اصل میں کیسا دکھتا ہے؟
-
انفوٹینمنٹ 6 گھنٹے پہلے
شویتا بچن کی پہلی کمائی انٹرنیٹ صارفین کے ہوش اڑاگئی