بالی ووڈ

گووندا کی ایک ناقابل یقین فرمائش کس طرح پوری ہوئی ؟

گووندا کی خواہش تھی کہ محمد رفیع کا کوئی گیت ان پر فلمایا جائے

Web Desk

گووندا کی ایک ناقابل یقین فرمائش کس طرح پوری ہوئی ؟

گووندا کی خواہش تھی کہ محمد رفیع کا کوئی گیت ان پر فلمایا جائے

گووندا محمد رفیع کے بہت بڑے مداح تھے
گووندا محمد رفیع کے بہت بڑے مداح تھے

مشہور انڈین اداکار گووندا نے بطور ڈانسر فلمی دنیا میں قدم رکھا، بعد ازاں کامیڈین اور ایکشن ہیرو کے طور پر اُبھرے۔

وہ نامور گلوکار محمد رفیع جن کے گیتوں نے دلیپ کمار سے لے کر بعد میں آنے والے بڑے بڑے اداکاروں کو اسٹار بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا،ان کے بہت بڑے مداح تھے اور اُن کی شدید ترین خواہش تھی کہ محمد رفیع کا کوئی گانا اُن پر فلمایا جاتا۔

لیکن شومئی قسمت کہ رفیع صاحب اُن کی فلمی دنیا میں آمد سے پہلے ہی اس دنیا سے چلے گئے اور اُن کی موت گووندا کے دل میں ایک حسرتِ ناتمام چھوڑ گئی۔

گووندا اکثر کہا کرتے تھے کہ ’کاش رفیع صاحب زندہ ہوتے تو وہ اُن کے چَرن چھو کر عرض کرتےکہ اے سنگیت کے بھگوان آپ نے کئی لوگوں کیلئے گیت گائے، کوئی ایک گیت میرے لیے بھی گا دیں نا‘ لیکن وہ نہیں جانتے  تھے کہ قدرت اُن کی جذباتی شدّت کو دیکھتے ہوئے کئی برس پہلے ہی اُن کی خواہش کی تکمیل کا سامان تیار کر چکی تھی۔

یہ واقعہ ہے 1979ء کاجب محمد رفیع کی موت سے کچھ عرصہ پہلے اُس وقت کے موسیقار بپی لہری نے ایک فلم کیلئے محمد رفیع سے ایک گیت ریکارڈ کروایا لیکن اُس میں ایک مبہم سی غلطی ہو جانے کے باعث مسترد کر دیاگیا۔

 وہ غلطی محض اِتنی تھی کہ گانے کے آخر میں رفیع صاحب نے مرکزی بول ’آپ کا جواب کیا‘ میں لفظ ’کیا‘ کو روانی میں ’کا‘ بول دیا، اگرچہ دہراتے وقت ’کیا‘ ہی ادا کیا لیکن بپی لہری اِس بات پر اَڑ گئے اور بعد ازاں وہ فلم بھی نہ بن سکی۔

بپی لہری کسی سازگار موقع پر وہ گیت دوبارہ سے ریکارڈ کروانے کا ارادہ کیے ہوئے تھے لیکن محمد رفیع کی اچانک موت کے سبب بہت کچھ ادھورا ہی رہ گیا۔

اِس واقعہ کے کئی سال بعد یعنی تقریباً دس سال بعد 1989ء میں فلم ’فرض کی جنگ‘جس میں مرکزی کردار گووندا اور نیلم ادا کر رہے تھے، اُس کے ایک منظر ، جس میں ہیرو نے اپنی محبوبہ کو ایک پھول پیش کرنا ہوتا ہے، اس منظر کیلئے کوئی موافق گیت نہیں مل رہا تھا۔

اِتفاق کی بات یہ کہ اِس فلم کے موسیقار بھی بپی لہری ہی تھے اور اُنہیں مطلوبہ صورتحال کے تحت کوئی گانا سوجھ نہیں رہا تھا، بہت سے گانے پیش کیے گئے لیکن وہ ہر ایک کو مسترد کرتے گئے۔

وہ کسی بھی گانے سے مطمئن نہیں ہو پا رہے تھے،اِسی دوران گووندا مختلف ذرائع سے یہ جان چکے تھے کہ کئی سال پہلے رفیع صاحب کا ایک گیت ریکارڈ کیا گیا تھا لیکن وہ کبھی کسی فلم میں کاسٹ نہیں کیا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ وہ گیت مذکورہ منظر کیلئے مطلوبہ خوبیاں بھی رکھتا ہے، گووندا تقریباً دوڑتے ہوئے بپی لہری کے پاس جا پہنچے اور اُن سے پُرزور اصرار کیا کہ وہ رفیع صاحب کا یہ گیت اُن پر پکچرائز کریں۔

 اس پر بپی لہری ایک پل کیلئے تو گویا یادوں کے سمندر میں اُتر گئے، پہلے تو بپی لہری نہیں مانے لیکن جب گووندا نے عرض کی ’کہ جناب بڑوں سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور پھر رفیع صاحب تو ایک عظیم فنکار تھے تو اُن کی غلطی کو کیوں نہیں معاف کیا جا سکتا۔ ہمارے لیے تو اُن کی غلطی بھی ایک خوبی کی حیثیت رکھتی ہےاور پھر رفیع صاحب کے گیت کی وجہ سے فلم پر بھی اچھا اثر پڑے گا۔

رفیع صاحب ایک بار پھر سے زندہ ہو جائیں گے اور رفیع صاحب کے تمام چاہنے والے بھی سینماؤں کا رخ کریں گے۔ یہ بات بپی لہری کے دل میں اُتر گئی۔

یوں رفیع صاحب کا وہ گمنام رتن دس سال بعد منظرِ عام پر آ گیا اور گووندا کی دلی مراد بھی پوری ہوگئی۔ 

تازہ ترین