ٹریول

حادثے کی صورت میں جہاز کی کونسی سیٹ سب سے زیادہ محفوظ ہے؟

ہوائی جہاز کو آج بھی دنیا بھر میں سفر کا محفوظ ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے

Web Desk

حادثے کی صورت میں جہاز کی کونسی سیٹ سب سے زیادہ محفوظ ہے؟

ہوائی جہاز کو آج بھی دنیا بھر میں سفر کا محفوظ ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے

(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

دُنیا بھر میں مسافر طیاروں کو حادثے پیش آتے رہتے ہیں مگر حال ہی میں آذربیجان اور جنوبی کوریا کے مسافر طیاروں کے حادثات نے فضائی سفر کرنے والے مسافروں میں خوف و دہشت طاری کردی ہے۔

ان حادثات کے پیشِ نظر یہ سوال ایک بار پھر پوچھا جانے لگا ہے کہ حادثے کی صورت میں جہاز کے کس حصے میں بیٹھے مسافر محفوظ رہ سکتے ہیں؟

اس دوران ایک سوشل میڈیا پوسٹ بھی وائرل ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ حادثے کی صورت میں جہاز میں سب سے آگے بیٹھے مسافروں کی ہلاکت کے خدشات سب سے زیادہ ہوتے ہیں جبکہ پیچھے بیٹھے مسافروں کی ہلاکت کے امکانات کم سے کم ہوتے ہیں۔

لیکن کیا اس حوالے سے کوئی باقاعدہ تحقیق موجود ہے یا یہ دعوے محض قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں؟

'اکنامک ٹائمز' کے مطابق سال 2012ء میں ایک تجربہ کیا گیا جس میں ماہرین نے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی کہ اگر جہاز حادثے کا شکار ہوتا ہے تو کس حصے میں بیٹھے مسافروں کی ہلاکت کا امکان زیادہ ہوتا ہے؟

اس تجربے کیلئے سائنسدانوں، سیفٹی ماہرین اور پائلٹس پر مشتمل ایک ٹیم نے 'بوئنگ 727' کا ایک صحرا میں کریش کروایا، 27 اپریل 2012ء کو یہ طیارہ 225 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے ٹکرایا گیا، اس کے نتیجے میں جہاز کا لینڈنگ گیئر ٹوٹ گیا اور جہاز ٹوٹ کر کئی حصوں میں بکھر گیا۔

اس تجربے سے معلوم ہوا کہ جو مسافر جہاز کے سب سے آگے والے حصے میں بیٹھتے ہیں، حادثے میں ان کی ہلاکت کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں، جہاز کے درمیانی حصے یعنی پروں کے ساتھ والے حصے میں سوار مسافر شدید زخمی ہوتے ہیں جبکہ سب سے آخری حصے میں بیٹھے مسافروں کے معمولی زخموں کے ساتھ محفوظ رہنے کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔

لیکن کیا اس تجربے سے تمام حادثوں کا ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے؟ بالکل نہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ مسافروں کی ہلاکت اور محفوظ رہنے کے یہ امکانات صرف مخصوص انداز میں پیش آںے والے حادثوں میں ہی ممکن ہیں جن میں جہاز کا سب سے آگے والا حصہ سب سے پہلے زمین سے ٹکراتا ہے۔

لیکن دیگر نوعیت کے فضائی حادثات پر یہ نتائج لاگو نہیں ہوسکتے، مثلاً سال 1989ء میں امریکہ ایئر لائنز کی ایک پرواز ریاست آئیووا میں حادثے کا شکار ہوگئی تھی، اس میں سوار 269 افراد میں سے 184 افراد بچ گئے، بچنے والے بہت سے مسافر جہاز کے آگے والے حصے میں بیٹھے ہوئے تھے۔

سال 2015ء میں ’ٹائم میگزین' کے رپورٹز 1985ء سے 2000ء تک 15 برس کے دوران امریکا میں پیش آںے والے فضائی حادثات میں اموات کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جس کے بعد انہوں ںے نتیجہ اخذ کیا کہ پرواز کے سب سے پچھلے حصے کی درمیانی سیٹوں پر اموات کی شرح سب سے کم یعنی 32 فیصد ہوتی ہے، جہاز کے درمیانی حصے میں موجود سیٹوں میں بیٹھے مسافروں کے اموات کی شرح 39 فیصد جبکہ سب سے آگے والے حصے میں بیٹھے مسافروں کی اموات کی شرح 38 فیصد ہوتی ہے۔

لہٰذا مختلف تجربات کے مختلف نتائج اور اعدادوشمار میں فرق کو مدنطر رکھتے ہوئے ماہرین کی رائے ہے کہ پروازوں کے حادثات اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف اور بھیانک ہو سکتے ہیں۔

مثلاً اگر کوئی جہاز کسی پہاڑ سے ٹکراتا ہے تو اس میں سوار تمام مسافروں کے بچنے کے امکانات نہایت کم ہوتے ہیں، اسی طرح کھلے سمندر میں جہاز کے گرنے سے بھی سواریوں کے ہلاکت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

علاوہ ازیں فضائی حادثات میں لقمہ اجل بننے والے مسافروں میں جو عام عادت نوٹ کی گئی وہ یہ تھی کہ ان تمام مسافروں نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھ رکھی تھی، جوکہ فضائی سفر کے علاوہ گاڑی میں سفر کے دوران بھی باندھنا ضروری سمجھی جاتی ہے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ ہوائی جہاز کو آج بھی دنیا بھر میں سفر کا محفوظ ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے، ماہرین کا کہنا ہےکہ حادثات سے بچاؤ کیلئے عملے اور انتظامیہ سمیت مسافروں کو بھی بنیادی احتیاطی تدابیر کی پابندی لازمی بنانی چاہیے۔

تازہ ترین