اسکینڈلز

سیف علی خان پر حملے کی کہانی میں جھول سامنے آنے لگے

چند سوالات ایسے ہیں جو پورے واقعہ میں واضح تضادات کی نشاندہی کرتے ہیں

Web Desk

سیف علی خان پر حملے کی کہانی میں جھول سامنے آنے لگے

چند سوالات ایسے ہیں جو پورے واقعہ میں واضح تضادات کی نشاندہی کرتے ہیں

(فوٹو: بھارتی میڈیا)
(فوٹو: بھارتی میڈیا)

بھارت کے شہر ممبئی کے پوش علاقے باندرہ میں 15 اور 16 جنوری کی درمیانی شب بالی وڈ اداکار سیف علی خان اپنے لگژری اپارٹمنٹ میں چوری چھپے گھسنے والے شخص کے ساتھ تصادم میں زخمی ہونے اور اسپتال منتقل کیے جانے کے بعد صحتیاب ہوکر گھر لوٹ چکے ہیں۔

اس واقعے کو 6 دن گزر چکے ہیں، لیکن ابھی تک کچھ ایسے اہم سوالات کے جوابات سامنے آنا ضروری ہیں جو اِس واقعہ کی ترتیب میں تضادات کی نشاندہی کرتے ہیں۔

- حملہ آور باندرہ جیسے پوش علاقے میں واقع اتنی اونچی رہائشگاہ کے مین گیٹ سے بغیر کسی پوچھ گچھ کے کیسے داخل ہوا؟

-کیا اپارٹمنٹ کی مین اینٹرنس کی نگرانی کے لیے کوئی حفاظتی پروٹوکول نہیں تھا؟

-کیا اس وقت گارڈز سو رہے تھے؟

- جب سیف پر حملہ ہوا تو گھر کے اندر موجود میل اسٹاف نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ اور اس نازک لمحے میں وہ کر کیا رہے تھے؟

- پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے لیکن واقعہ کے دن کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں عمارت کی سیڑھیاں اترتے دیکھے جانے والے شخص سے اس کی شکل مختلف کیوں ہے؟ کیا ایسا لائٹننگ کے فرق کیوجہ سے ہے یا جان بوجھ کر کسی اور کو بلی کا بکرا بنایا جارہا ہے؟

- سیف علی خان کو چُھرا مار کر زخمی کرنے کے بعد ملزم اُن کی عمارت کے باغیچے میں 2 گھنٹے تک کیسے چھپا رہا؟ کیا الارم بجنے کے بعد اس دوران کسی نے بھی احاطے کی تلاشی نہیں لی؟

اس معاملے پر وضاحت کے لیے بھارتی میڈیا نے سابق آئی پی ایس افسر اور انٹیلی جنس بیورو کے سابق اسپیشل ڈائریکٹر پی کے جین اور مہاراشٹر پولیس کے سابق ایڈیشنل ڈی جی پی (اسپیشل آپریشنز) یشو وردھن آزاد سے بات کی۔

دونوں سابق عہدیداروں نے کیس اور تحقیقات کا تجزیہ کیا اور تضادات کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ تحقیقات کو کس سمت جانا چاہئے۔

یشو وردھن آزاد نے کہا کہ 'اس کیس میں یقینی طور پر تضادات موجود ہیں، ممبئی جیسے شہر میں، جہاں مجرموں کا بسیرا ہے، وہاں کسی پوش علاقے کی عمارت میں گرل کے بغیر کھڑکی ہونا ایک حیران کن بات ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'واقعے کے وقت کی ناکافی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی حیران کن ہیں، ایسے علاقوں کی عمارتوں میں ڈھیروں سی سی ٹی وے کیمرے نصب ہوتے ہیں'۔

ملزم کی شناخت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'جائے وقوع سے فنگر پرنٹس اور ملزم کا کیپ بھی ملا ہے، اس کے کیپ میں ملنے والے بالوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے گا، گھر کے عملے کی جانب سے بھی شناخت پریڈ کروائی جائے گی اور چاقو کا تیسرا ٹکڑا بھی جانچ کیلئے بھیجا جائے گا، اسکے بعد واضح ہوجائے گا کہ زیرحراست شخص ہی ملزم ہے یا کوئی اور'۔

اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے سابق اسپیشل ڈائریکٹر پی کے جین نے کہا کہ 'میں شروع سے ہی کہا رہا ہوں کہ پوری کہانی میں جھول ہے، کیس کی ایف آئی آر، جو اب گم ہوگئی ہے، اس میں بھی کچھ جھول تھے، معاملہ اس تناظر میں کافی گھمبیر لگ رہا ہے کہ واقعے کے وقت صرف فی میل اسٹاف اور سیف علی خان ہی مبینہ ملزم سے مڈبھیڑ کررہے تھے، باقی سب کہاں تھے؟ کوئی ان کی مدد کو کیوں نہ آیا؟ اور پھر اس کے بعد اسے ایک کمرے میں بند کیا جاتا ہے اور وہ وہاں سے بھی فرار ہوجاتا ہے، میرا مطلب ہے کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کچھ سمجھ نہیں آرہیں'۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ تفتیش کے دوران تفتیشی افسر کو تبدیل کیا جانا بھی عجیب ہے، جب تک کوئی بڑی وجہ نہ ہو، تفتیشی افسر کو عموماً تبدیل نہیں کیا جاتا۔

پی کے جین نے مزید کہا کہ اگر زیرحراست شخص ہی اصل مجرم ہے تو پولیس نے واقعی شاندار کام کیا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ پورے کیس میں کچھ نہ کچھ جھول ضرور موجود ہیں۔

تازہ ترین