عمران خان کو کتنے سال اقتدار سے باہر رکھنا ہے؟ فیصلہ ہوگیا
سینئر صحافی حفیظ اللہ نیازی نے تازہ کالم میں بڑی خبر دیدی

9 مئی 2023۔۔۔ یہ وہ دن تھا جب عمران خان کی گرفتاری کیخلاف احتجاج کیلئے پی ٹی آئی کارکنان یوں میدان میں اترے تھے گویا اسٹیبلشمنٹ کیخلاف اعلان جنگ کردیا ہو۔
لیکن ردعمل ایسا غیرمتوقع اور زوردار تھا کہ 9مئی کے احتجاج اور توڑ پھوڑ کے بعد ان میں سے اکثر کو روپوش ہونا پڑا، انہی میں ایک نام حسان نیازی کا تھا۔
حسان نیازی بھی 9 مئی احتجاج کے بعد روپوش تھے لیکن 13 اگست کو پولیس نے انہیں ایبٹ آباد سے گرفتار کرلیا، وہ اور انکے قائد عمران خان تاحال زیرحراست ہیں۔
حسان نیازی صرف پی ٹی آئی سپورٹر نہیں بلکہ عمران خان کے بھانجے بھی ہیں اور معروف کالم نگار و تجزیہ کار حفیط اللہ نیازی کے بیٹے ہیں، حفیط اللہ نیازی عمران خان کی سیاست کے شدید مخالف ہیں لیکن اپنے بیٹے کو عمران خان کی مخالفت پر قائل نہ کرسکے۔
اپنے تازہ کالم میں حفیظ اللہ نیازی نے ملک میں سیاسی عدم استحکام کا نوحہ پڑھتے ہوئے ایک بڑی خبر دیدی ہے جس نے عمران خان کے تمام حامیوں اور ہمدردوں کو تشویش میں مبتلا کردیا۔
حفیظ اللہ نیازی لکھتے ہیں کہ 'گناہوں کا اعتراف اور قوم سے معافی مانگنا ہو گی، سیاسی عدم استحکام وطنی جان کے درپے ہے، ذمہ دار کون ہے؟ اس حال تک پہنچانے والے بیشتر اللہ کے حضور حساب کتاب دینے میں مصروف ہیں، بڑی تعداد آج بھی سرعام دندنا رہی ہے، زندہ لوگوں میں کوئی ایک بھی نہیں ہے جو اپنے حصہ کے گناہوں کا اقرار کر پائے جبکہ سب باجماعت شریکِ جرم ہیں، زمانہ قدیم سے وطنی طاقت کا ایک ہی تقاضہ رہا ہے کہ ملک بچانا ہے تو اقتدار میرے پاس رہنا ہے، کاش! سیاستدان اور ادارے اپنی اپنی ذات منہا رکھتے، مملکت کو اپنی ذات پر ترجیح دے پاتے'۔
انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ 'چند روز پہلے جنرل عاصم منیر نے بہاولپور میں پُرجوش نوجوان خواتین و حضرات سے خطاب فرماتے ہوئے کہ ’’جب تک نوجوان نسل پاک فوج کے پیچھے کھڑی ہے، ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا"، اِس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ رائے عامہ کا فوج کے پیچھے کھڑا ہونا ریاستی مجبوری بلکہ ضروری ہے۔ اگر آج رائے عامہ دور ہے تو ذمہ دار کون ہے؟ تعین کرنا ہو گا۔ بلاشبہ حکومت، اداروں کے حق میں رائے عامہ کی غیر موجودگی، قوموں اور ملکوں کو گھائل رکھتی ہے۔ ریاست کا مستقبل سیاسی استحکام سے وابستہ، بذریعہ طاقت حصول ناممکن ہے'۔
حفیظ اللہ نیازی نے اپنے کالم میں اعتراف کیا کہ 'آج سیاست عمران خان کے قبضہ استبداد میں ہے، چاہے کسی کی آن جائے۔ پچھلے 3 سالوں سے عمران خان کیخلاف اَن گنت حربے آزمائے گئے، ہر حربہ عمران کی مقبولیت بڑھا گیا۔ کہا گیا کہ ’’جیل عمران خان کو توڑ ڈالے گی‘‘ مگر میری رائے مختلف ہے، جیل کبھی کسی سیاستدان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ عمران خان تو روزانہ کی بنیاد پر جیل کے فوائد سے مستفید ہو رہے ہیں۔ آج تک انکی جانب سے تمام جلسے جلوس، ریلیاں، مضامین، خطوط سب کا مقصد یہی تھا کہ رائے عامہ کا خون گرمانے کا بہانا بنا رہے'۔
اپنے کالم میں حفیظ اللہ نیازی بتاتے ہیں کہ 'عمران خان کو بخوبی ادراک ہے کہ طاقت سے ٹکر جہاں اقتدار سے دور لے جاتی ہے وہاں رائے عامہ بتدریج حق میں جوق در جوق رہتی ہے۔ اندر خانہ اُن میں یہ خواہش موجود ہے کہ اگر مملکت میری نہیں تو پھر کسی کی نہیں۔ اب جبکہ ’’مقبول سیاست‘‘ اُنکے قدم چوم چکی، تو اقتدارکی خاطر قربان نہیں کرنی۔ البتہ اپنی ہی پارٹی کے کرتا دھرتا گھٹنے ٹکوا سکتے ہیں، عمران خان کی اصل کامیابی، 3 سال سے گلی بازاروں کا سیاسی موضوع بنے رہنا ہے، ہر سُو زیر بحث عمران خان ہے بس، اور ریاست کے اعصاب پر بھی سوار ہے'۔
ملک میں مسلسل سیاسی عدم استحکام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حفیظ اللہ نیازی لکھتے ہیں کہ 'یہ بدنصیب ملک ہے جہاں 7 دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام معمول ہے۔ ایک لاوا پھٹنے کو ہے، مملکت کسی وقت بھی بھونچال کی گرفت میں ہوگی'۔
اشاروں کنایوں میں بڑی پشگوئی کرتے ہوئے حفیظ اللہ نیازی لکھتے ہیں کہ 'یہ حالات کا جبر ہے کہ ایسا وقت بھی آنے کو ہے کہ بدترین مخالف کو اقتدار حوالے کرنا طاقت کی مجبوری بن جائے، میرا خدشہ ہے کہ 3 سال بعد یا اس سے کچھ پہلے، شہباز حکومت، جب طاقت کا بوجھ بن جائے گی تو بوجھ اُتارنا بنتا ہے'۔
آگے چل کر حفیظ اللہ نیازی نے ایک اور بڑا دعویٰ کیا کہ 'ملک بچانے کیلئے PPP اور PTI کا امکانی اتحاد شاید اچنبھے کی بات نہیں ہو گی۔ البتہ عمران خان کو اقتدار سے باہر رکھنا ادارتی فیصلہ ہے جو اگلے 18 سال نافذ رہنا ہے'۔
مقتدرہ کے فیصلوں پر طنز کرتے ہوئے حفیظ اللہ نیازی لکھتے ہیں کہ 'پچھلے 70 سال سے سیاستدان ، ادارے سب شریک جرم ہیں، جن کے سبب بیمار ہوئے، ان سے اب دوا لینا نہیں بنتی۔ جنرل باجوہ عمران جوڑی کی مجرمانہ شراکت داری تہلکہ خیز رہی، 6 سال کیا کیا گُل نہیں کھلائے۔ عمران خان کی جو سیاست آج حرام اور شجر ممنوعہ ہے، اسکی حلال شجرکاری اور آبیاری باجوہ پارٹی ہی نے تو کی تھی۔ موصوف ریل میں ہو یا جیل میں، دونوں رونقیں جنرل باجوہ کی عطا کردہ ہیں۔ پہلے اقتدار دیا اور پھر علیحدگی پر مضبوط رکھا کہ شہباز حکومت کو گھر بھیجنا تھا۔ امابعد نگران حکومت کے ذریعے ادارہ پر باجوہ کنٹرول تاحیات رہنا تھا۔ غلطی بانجھ نہیں ہوتی، تب سے چل سو چل، "عمران مکاؤ" کی سنجیدہ کوششیں ناکام رہی ہیں۔ جہاں عمران خان بوجوہ اپنے طور فرسٹریشن کا شکار ہیں، وہاں ادارے کی فرسٹریشن بھی دیدنی ہےکہ سب تدبیریں الٹی پڑ چکی ہیں'۔
مقتدرہ کے ہاتھوں سانحہ 9 مئی کی مِس ہینڈلنگ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حفیظ اللہ نیازی لکھتے ہیں کہ 'سانحہ 9 مئی کو جس طرح ہینڈل کیا گیا، حاصل حصول رائی برابر جبکہ بدنامی پہاڑ جتنی، بقلم خود سانحہ کی ساکھ برباد کی۔ پہلے قوم کو بتایا کہ سانحہ 9مئی ناقابل معافی جرم ہے اور پھر تھوک کے حساب سے معافیاں بھی دیں، استحکام پاکستان پارٹی بناکر اپنے مؤقف کو کمزور کیا۔ ماسوائے فوجی عدالتوں کی سزائیں، کوئی اور کامیابی نہ ملی۔ عمران خان کو فوجی عدالتوں سے سزا دلوانی تھی، کیا اب ایسا کرنا ممکن ہے؟۔ یاسمین راشد، میاں محمود رشید، اعجاز چوہدری، عمر چیمہ اور فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 60 عام کارکنوں پر سارا غصہ نکالا۔ اب جبکہ آئینی عدالت میں آرمی ایکٹ پر فیصلہ آئندہ ہفتہ متوقع ہے، اگر آئینی بینچ نے سویلین کے ٹرائل کی اجازت دی تو عدالتی ساکھ ڈھیر اور اگر اجازت نہ دی تو اسٹیبلشمنٹ کا رہا سہا وقار بھی برباد ہوجائے گا'۔
حفیظ اللہ نیازی اپنے بیٹے حسان نیازی سمیت پی ٹی آئی کے دیگر زیرحراست کارکنان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ 'عمران خان مزے میں کہ کارکنوں کی سانحہ 9 مئی سے جڑے کیسز میں رہائی یا سزا، دونوں میں انہیں فائدہ ہے، غصہ PTI کے چند درجن کارکنوں تک محدود، اترنے کا نام نہیں لے رہا۔ جیل کے اندرسب جیل، PTI ورکرز کو ہائی سیکورٹی زون میں دہشتگردوں کیساتھ رکھا جا رہا ہے۔ جیل مینویل کے برخلاف بیشمار سہولتوں سے محروم کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی بے بسی کا عینی شاہد ہوں'۔
اپنے کالم میں حفیظ اللہ نیازی نے خواہش ظاہر کی کہ 'کاش کہ موجودہ سیاستدان اور ادارے صدق دل سے اقتدار سے برات لیتے، اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے کہ ’’ہم لوگ ہی مملکت کی بربادی کے ذمہ دار ہیں، معافی کے خواستگار ہیں‘‘۔ ہے کوئی جو اپنی ذات کو منہا کرکے پاکستان کو مقدم رکھے؟'
کالم کے اختتام میں حفیظ اللہ نیازی لکھتے ہیں کہ 'اگر آج ادارے، سیاسی جماعتیں، نواز شریف، عمران خان، بھٹوز، فضل الرحمان وغیرہ باجماعت خلوص دل سے اپنے حصہ کے گناہوں کا اعتراف کر یں اور اپنے مفادات کو پاکستان کے سامنے ڈھیر رکھیں، تو یقین کامل ہے کہ مملکت خداداد کو ساتویں آسمان تک پہنچنے کیلئے پَر لگ جائیں گے'۔
-
پاکستان 24 منٹ پہلے
پی ایس ایل ترانہ تنازع، علی ترین کو ’مردوں کا ملالہ‘ کا خطاب مل گیا
-
عالمی منظر 35 منٹ پہلے
میانمار میں7.7 شدت کا زلزلہ، بنکاک بھی متاثر
-
سوشل میڈیا 42 منٹ پہلے
جیبلی (Ghibli)اسٹائل میمز کیا؟ ٹرینڈ کیوں کررہی ہیں؟
-
فلم / ٹی وی 60 منٹ پہلے
سپر اسٹار سلمان خان نے ٹوٹی پسلی کے ساتھ ڈانس کیسے کیا؟