دلچسپ و خاص

مشہور نعرہ 'میرا جسم، میری مرضی' کا تاریخی پسِ منظر

ایک نعرہ، کئی معانی

Web Desk

مشہور نعرہ 'میرا جسم، میری مرضی' کا تاریخی پسِ منظر

ایک نعرہ، کئی معانی

(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

آج 8 مارچ بروز ہفتہ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن جوش و خروش سے منایا جارہا ہے۔

یہ دن خواتین کی کامیابیوں، ان کی جدوجہد اور حقوق کے تحفظ کو فروغ دینے کے لیے مخصوص ہے۔

اس دن کا مقصد جنس کی بنیاد پر مساوات اور خواتین کے حقوق کے لیے عالمی سطح پر بیداری اور جدوجہد کو فروغ دینا ہے۔

اس موقع پر دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی خواتین کے حقوق کیلئے ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور انکے مطالبات کے اظہار کیلئے کئی قسم کے نعرے لگائے جاتے ہیں جن میں سب سے مشہور 'میرا جسم میری مرضی' ہے۔

پاکستان میں 'میرا جسم، میری مرضی' کا نعرہ ایک طویل عرصے سے موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

اس نعرے کو بعض لوگ خواتین کے حقوق کی علامت سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ حلقے اسے معاشرتی اقدار کے خلاف تصور کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے، جو خواتین کے خودمختاری، تحفظ اور ان کے فیصلوں کے حق کو اجاگر کرتا ہے۔

نعرے کی تاریخ

"میرا جسم، میری مرضی" کا نعرہ بین الاقوامی سطح پر خواتین کے حقوق کی تحریکوں سے جڑا ہوا ہے۔

1969 کے اواخر میں یہ نعرہ مغرب میں خواتین کے تولیدی حقوق کے لیے جدوجہد کی علامت کے طور پر وضع کیا گیا تھا اور پھر اسے عالمی حقوق نسواں کی تحریکوں نے اپنا لیا۔

اس کے بعد سے یہ نعرہ دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ادوار میں ابھرتا رہا، خاص طور پر فیمنسٹ تحریکوں میں اس کا بار بار استعمال کیا گیا۔

مغربی ممالک میں یہ نعرہ اسقاط حمل کے حق، جنسی تشدد کے خلاف اور خواتین کی جسمانی خودمختاری کے مطالبات کے لیے اپنایا گیا۔

پاکستان میں یہ نعرہ 2018 کے عورت مارچ میں پہلی بار نمایاں طور پر سامنے آیا، جب خواتین نے اپنے بنیادی حقوق، جبر کے خاتمے اور برابری کے مطالبات کے لیے آواز بلند کی۔

یہ نعرہ درحقیقت اس اصول کو بیان کرتا ہے کہ ہر فرد کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا اختیار ہونا چاہیے، چاہے وہ شادی سے متعلق ہوں، تعلیم سے، یا کسی بھی اور ذاتی پہلو سے متعلق ہوں۔

معاشرتی ردعمل

تاہم یہ بحث موجود ہے کہ اس نعرے کو غلط انداز میں پیش کیا گیا یا غلط انداز میں سمجھا گیا جسکے نتیجے میں اسے صرف فحاشی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔

سوشل میڈیا اور مختلف پلیٹ فارمز پر اس کے خلاف شدید ردِ عمل آیا اور کچھ لوگوں نے اسے مغربی ثقافت کا پرچار قرار دیا۔

حالانکہ اس نعرے کا مطلب صرف یہی ہے کہ عورت کو بھی اپنی زندگی اور جسم پر ویسا ہی حق حاصل ہونا چاہیے جیسا ایک مرد کو ہوتا ہے۔

پاکستان میں خواتین کو ہراسانی، گھریلو تشدد، اور جبری شادی جیسے مسائل کا سامنا ہے، ایسے میں 'میرا جسم، میری مرضی' کا نعرہ دراصل ان حقوق کی طرف توجہ دلاتا ہے جنہیں اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے، خواتین کو اپنے لباس، نوکری، شادی اور دیگر اہم فیصلوں میں آزادی دینا دراصل ایک مہذب معاشرے کی پہچان ہے۔

یہ بحث ابھی جاری ہے، اور شاید ہمیشہ جاری رہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم اس نعرے کو جذباتی ردعمل کے بجائے ایک فکری مکالمے کے طور پر دیکھیں۔

اگر ہم واقعی ایک ترقی پسند اور متوازن معاشرہ چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہر فرد، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا اختیار رکھے۔

تازہ ترین