عالمی یوم خواتین پر بالی وڈ کی یہ شاندار فلمیں ضرور دیکھیں
ان فلموں میں خواتین کے حقوق، مظالم، استحصال جیسے موضوعات کو نمایاں کیا گیا ہے

خواتین کے بغیر اس معاشرے کی تکمیل ممکن نہیں، دنیا کا پہلا شخص اگر ایک مرد تھا تو اس کے ساتھ ایک خاتون بھی تھیں جس نے آگے آنے والے ہزاروں برسوں کی پرورش کی۔
دنیا میں روز اول سے ہی خواتین کے حقوق پر زور دیا جاتا ہے، زمانہ قدیم سے لیکر زمانہ جدید تک خواتین کے حقوق کا چرچا رہا ہے۔
عورت کا صرف ایک روپ نہیں بلکہ وہ ماں، بیوی، بیٹی اور بہن کے روپ میں کسی بھی مرد کی ساتھی بنی رہتی ہے، یہ بدقسمتی ہے کہ ہر دور میں عورت کا استحصال ہوتا رہا ہے۔
تاہم عورتوں کے خلاف استحصال پر ہمیشہ آوازیں اٹھتی آئی ہیں اور ان کی خدمات کو ہمیشہ سراہا گیا ہے۔
اگر فلم انڈسٹری کی بات کی جائے تو بالی وڈ میں خواتین کے حقوق کو اجاگر کرنے کے لیے کئی فلمیں بنائی گئی ہیں جن میں ایک طرف ان پر ہونے والے مظالم دکھائے گئے ہیں تو دوسری طرف ان کے حقوق کی بات بھی کی گئی ہے۔
کئی فلموں میں عورتوں کو ویمن امپاورمنٹ کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور مثبت انداز میں ان کی صلاحیتوں کو دکھایا گیا ہے۔
ذیل میں ہم بالی وڈ کی انہی فلموں کی بات کریں گے۔
چک دے انڈیا:

بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک میں آج بھی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عورت کا صحیح مقام اس کا گھر اور کچن ہے، یہ فلم اسی نظریے کو توڑتی ہوئی نظر آتی ہے جس میں ویمن امپاورمنٹ کو مرکزی خیال بنایا گیا ہے۔
فلم کی کہانی ایک ویمن ہاکی ٹیم کی ہے، جس میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ عورتیں کسی طرح بھی مردوں سے کم نہیں ہوتیں۔
فلم کے پلاٹ میں خاتون کھلاڑی ورلڈ کپ کے لیے تیاریاں کرتی دکھائی دے رہی ہیں، تاہم ہاکی فیڈریشن کے اعلیٰ حکام خواتین کھلاڑیوں کو ورلڈ کپ کے لیے بھیجنے کے قائل نظر نہیں آتے اور وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی ٹیم بڑی ٹیموں سے مقابلہ نہیں کرسکتی۔
جس پر ٹیم کے کوچ (شاہ رخ خان) اپنی ٹیم کا مقابلہ مردوں کی ٹیم سے کروانے کا چیلنج دیتے ہیں، میچ شروع ہوتا ہے تو ویمن ٹیم مردوں کی ٹیم کو سخت چینلج دیتے ہوئے نظر آتی ہیں لیکن وہ میچ ہارجاتی ہیں لیکن مردوں کی ٹیم انہیں سراہتی ہے اور اپنی ہاکی اسٹک اٹھا کر ان کے عزم کی تعریف کرتی ہے۔
فلم کا مقصد خواتین کی خودمختاری اور ہر شعبے میں ان کی صلاحیتوں کا لوہا منوانا دکھایا گیا ہے۔
لجا:

’لجا‘ خواتین کے حقوق، سماجی ناانصافی اور پدرشاہی نظام کے خلاف بغاوت پر مبنی ایک فلم ہے، فلم کی کہانی ایک حاملہ خاتون ویدیہ (منیشا کوئرالا) کے گرد گھومتی ہے جو اپنے شوہر کی زیادتیوں سے تنگ آکر گھر چھوڑ دیتی ہے۔ اپنے سفر کے دوران وہ مختلف عورتوں سے ملتی ہے، جن کی زندگیاں بھی سماج میں عورتوں کے استحصال کی عکاسی کرتی ہیں۔
فلم میں چار خواتین کے کرداروں کے ذریعے خواتین کی مشکلات کو اجاگر کیا گیا ہے اور ان کے نام سیتا، جانکی، رما اور میتھلی ہیں، جو ہندو دیویوں کے ناموں سے مشابہت رکھتے ہیں۔
ہر کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح خواتین کو معاشرے میں مختلف طریقوں سے دبایا جاتا ہے اور وہ کس طرح اس کے خلاف کھڑی ہوتی ہیں۔
اس فلم کا ایک منظر شائد ناظرین کبھی بھول نہ پائیں جب میتھلی (ماہیما چوہدری) کی شادی ہورہی ہوتی ہے تو اس کے سسرال والے جہیز کی ناجائز ڈیمانڈ کو لیکر بارات واپس لے جانے کی دھمکی دیتے ہیں۔
میتھلی کا باپ ان کے آگے اپنی پگڑی رکھ دیتا ہے اور ان کی ڈیمانڈ پوری کرنے کی یقین دہانی کرواتا ہے لیکن ان کے مطالبات ختم ہی نہیں ہوتے۔
ایسے میں میتھلی منڈپ سے اٹھ کر آتی ہے اور بارات والوں کو ایسی کھری کھری سناتی ہے کہ میتھلی کے یہ ڈائیلاگ آج بھی ناظرین کو اچھی طرح یاد ہیں۔
ان ڈائیلاگز میں میتھلی نے معاشرے میں خواتین کے خلاف اپنائے جانے والے سلوک، جہیز کی ناجائز ڈیمانڈ کو خوب اچھے طریقے سے اجاگر کیا ہے ۔
فلم میں میتھلی کے ساتھ اور کئی خواتین کی کہانیاں ہیں جو معاشرے کے سلوک کی بالکل ٹھیک عکاسی کرتی ہیں۔
دنگل:

کیا صرف لڑکا ہی میڈل جیت سکتا ہے؟ یہ خیال اس باپ کو اچانک آتا ہے جب اس کی دو جوان بیٹیاں ہوتی ہیں اور بیٹا بہت چھوٹا ہوتا ہے۔
باپ سابقہ ریسلر ہوتا ہے اور میڈل جیتنے کی تمنا اس کے دل میں ہوتی ہے، البتہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی خواہش اس کی اولاد پوری کرے لیکن خدا نے اس کو دو بیٹیاں دیں جن کی پیدائش پر وہ مایوس ہوا۔
لیکن اچانک ایک دن اس کو خیال آیا کہ لڑکیاں بھی تو میڈل جیت سکتی ہیں تو اس نے اپنی بیٹیوں کو ریسلنگ کی تربیت دینا شروع کردی، اس سخت تربیت سے پہلے تو لڑکیاں گھبرا گئیں لیکن پھر باپ کے جذبے کو پورا کرنے کا عزم لیے محنت کرتی رہیں۔
باپ( عامر خان) اپنی بیٹیوں کو نیشنل اکیڈمی لیکر جاتا ہے جہاں کی مزید ٹریننگ ہوتی ہے، پھر وہ لمحہ آتا ہے جس میں ایک بیٹی میڈل حاصل کرکے باپ کا خواب پورا کردیتی ہے۔
’دنگل‘ فلم یہ بیان کرتی ہے کہ لڑکیاں بھی اتنی ہی قابل ہوتی ہیں جتنا کوئی لڑکا ہوتا ہے، باپ کے خواب کو پورا کرنے کے لیے بیٹیوں نے سر دھڑ کی بازی لگا دی اور باپ کو پھر اس بات کا پچھتاوا نہیں رہتا کہ اس کا کوئی بیٹا کیوں نہیں ہے۔
گنگوبائی کاٹھیاواڑی:

اس فلم میں خواتین کے دو الگ الگ پہلو دکھائے گئے ہیں، ایک پہلو میں ان کا استحصال اور پھر دوسرے پہلو میں ان کے حقوق ، کہانی شروع ہوتی ہے ایک لڑکی گنگو بائی سے ، جس کا عاشق اسے گجرات سے ممبئی لا کر بیچ دیتا ہے ، پہلے وہ مزاحمت کرتی ہے لیکن پھر اس مذموم دھندے میں جینا سیکھ جاتی ہے۔
اس دوران اس کے ساتھ ہونے والے مظالم یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ معاشرے میں دھتکاری ہوئی طوائفوں کی زندگی کتنی مشکل ہے اور انہیں کتنے مظالم سہنے پڑتے ہیں۔
فلم کے دوسرے حصے میں گنگو بائی بوڑھی ہو کر اپنے کوٹھے کا انتظام سنبھال لیتی ہے اور یہاں اس کے تعلقات انڈر ورلڈ کی دنیا سے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔
دراصل گنگو بائی ایک حقیقی کردار تھا جس پر فلم بنائی گئی ہے، گنگو بائی نے بھارت کے اُس وقت کے وزیراعظم نہرو سے بھی ملاقات کی تھی اور جسم فروشی کے پیشے کو قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا جسے نہرو نے مسترد کردیا تھا۔
فلم کا یہ پہلو بہت تضاد رکھتا ہے کیونکہ گنگو بائی خود اس دنیا میں اپنی مرضی سے نہیں آئی تھی اور روزانہ کوئی نہ کوئی لڑکی اغوا ہو کر اس منڈی میں پہنچتی تھی تو اس پیشے کو کس طرح قانونی قرار دیا جاتا لیکن فلم میں ایک طوائف عورت کے مسائل کو جس طرح پیش کیاگیا ہے وہ بہت عمدہ ہے، فلم میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ طوائف بھی ایک عورت ہوتی ہے اور اس سے نفرت کرنے سے پہلے اس کے پس منظر اور تکالیف کو جان لینا چاہیے۔
پنک:

"پنک" خواتین کی خودمختاری، ان کے حقوق اور معاشرتی سوچ کے خلاف ایک طاقتور فلم ہے، فلم کی کہانی تین نوجوان خواتین (تاپسی پنو، کرتیکا چوہان، آندریا تاریانگ) کے گرد گھومتی ہے، جو دہلی میں ایک پارٹی کے دوران کچھ مردوں سے الجھ جاتی ہیں۔
وہ مرد، جو بااثر خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، لڑکیوں پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ان کا دفاع کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں ایک شخص زخمی ہو جاتا ہے۔
بعد میں، وہی مرد ان لڑکیوں کے خلاف مقدمہ درج کروا دیتے ہیں اور انہیں غلط کردار کی حامل ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس موقع پر ایک ریٹائرڈ وکیل دیپک سہگل (امیتابھ بچن) ان کا دفاع کرنے کے لیے آگے آتا ہے۔ کیس کے دوران، وہ رضامندی کے تصور پر زور دیتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ "نہیں کا مطلب نہیں ہوتا ہے"، چاہے لڑکی کوئی بھی ہو، کہیں بھی ہو، اور کسی بھی وقت ہو۔
فلم "پنک" سماج میں خواتین کے کردار، ان کے حقوق اور معاشرتی دقیانوسی خیالات کو چیلنج کرتی ہے، فلم کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ عورت کی رضامندی سب سے اہم ہے اور کسی بھی شخص کو اس کی مرضی کے بغیر اسے چھونے یا اس کے قریب جانے کا حق نہیں۔
فلم میں عدالت میں دیپک سہگل (امیتابھ بچن) کا مکالمہ بہت مشہور ہوا:
''نہیں کا مطلب نہیں ہوتا ہے، اور جب کوئی 'نہیں' کہے تو فوراً رک جانا چاہیے''
فلم میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کسی طوائف کی رضامندی کے بغیر بھی اس کے ساتھ تعلق قائم نہیں کیا جاسکتا ہے، معاشرتی تصور جس میں بتایا جاتا ہے کہ طوائف کے ساتھ کچھ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اگر اس کی رضامندی نہیں ہے تو وہ ایک جرم ہے۔
مسز:

ایک لڑکی جو رقص کرنے کی شوقین ہے ، اس کی شادی ایک جوائنٹ فیملی سسٹم میں ہوجاتی ہے، اسے جلد ہی گھر کی ذمے داریوں پر لگا دیا جاتا ہے اور وہ بخوشی اپنی ذمے داریاں قبول کرنے لگتی ہے۔
گھر میں دو مرد ہیں ، ایک لڑکی کا شوہر اور اس کا سسر ہے، ان دونوں کا کھانا بنانا اب اس کی ذمے داری ہوتی ہے، لڑکی کے سسر کو اس کا بنایا ہوا کھانا پسند نہیں آتا تو وہ دل برداشتہ ہوتی ہے۔
اس کے بعد جب اسے اپنے رقص کرنے کے شوق کے لیے پارٹ ٹائم جاب کی بھی اجازت نہیں دی جاتی تو اس کا دل مزید خراب ہوجاتا ہے۔
اس کے بنائے ہوئے کھانوں اور مشروبات پر جب اسے طعنے ملتے ہیں تو وہ مزید اس کے لیے دل دکھانے کا موجب بنتے ہیں۔
جنسی تعلقات میں سرد مہری پر جب وہ اپنے شوہر سے شکوہ کرتی ہے تو اس کا شوہر اسے طعنہ دیتا ہے کہ وہ اس کے قریب اس لیے نہیں آتا کیونکہ اس کے اندر سے کچن کی بدبو آتی ہے۔
پھر جب لڑکی کے صبر کے تمام ضابطے ٹوٹ جاتے ہیں تو وہ گھر چھوڑ دیتی ہے اور اپنے رقص کے شوق کو جاری رکھتی ہے۔
اس فلم میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عورت کی خواہشات کو بھی سراہنا چاہیے اور اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، وہ بھی تعریف سننا چاہتی ہے اور شوہر کے ساتھ قربت چاہتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے خوابوں کو بھی پورا کرنا چاہتی ہے، اس لیے شادی کے بعد ان تمام چیزوں کو لازمی مدنظر رکھنا چاہیے۔
مدر انڈیا 1957:

"مدر انڈیا" ہندوستانی سنیما کی سب سے شاندار اور تاریخی فلموں میں سے ایک ہے، جو ایک ماں کی قربانی، ہمت، اور سچائی کی مثال پیش کرتی ہے۔ یہ فلم رادھا (نرگس) نامی ایک بہادر ماں کی کہانی ہے، جو اپنی زندگی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے اصولوں پر قائم رہتی ہے۔
کہانی ایک دیہاتی خاتون رادھا کے گرد گھومتی ہے، جو اپنے شوہر شمو (راج کمار) کے ساتھ ایک معمولی زندگی گزار رہی ہوتی ہے، قرض کے بوجھ تلے دبے ہونے کے باعث ان کی زمین سُکھی لال ساہوکار (کے این سنگھ) کے قبضے میں چلی جاتی ہے۔ جب رادھا کا شوہر غربت اور معذوری کے سبب اسے اور بچوں کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے، تو وہ تنہا اپنے دو بیٹوں برجُو (سنیل دت) اور رامُو (راجندر کمار) کی پرورش کرتی ہے۔
رامُو ماں کی طرح صبر اور ایمانداری کا پیکر ہوتا ہے، جبکہ برجُو اپنی ماں کی مشکلات دیکھ کر باغی بن جاتا ہے اور بدمعاشوں کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے، جب برجُو گاؤں میں مظالم ڈھانے لگتا ہے اور ساہوکار کی بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو رادھا اپنے بیٹے برجُو کو خود اپنے ہاتھوں سے گولی مار کر قتل کر دیتی ہے تاکہ انصاف اور اصولوں کی حفاظت کی جا سکے۔
یہ فلم ہندوستانی عورت کی قوت، صبر، قربانی، اور ایمانداری کو اجاگر کرتی ہے، رادھا کی جدوجہد اور قربانی کو (Mother India) کے استعارے کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو ہر حال میں اپنے ملک اور اصولوں کی حفاظت کرتی ہے۔
فلم کا کلائمکس، جہاں ماں اپنے ہی بیٹے برجُو کو انصاف کے لیے مار دیتی ہے، ایک انتہائی جذباتی اور طاقتور منظر ہے، جس نے ناظرین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
-
پاکستان 15 منٹ پہلے
پی ایس ایل ترانہ تنازع، علی ترین کو ’مردوں کا ملالہ‘ کا خطاب مل گیا
-
عالمی منظر 26 منٹ پہلے
میانمار میں7.7 شدت کا زلزلہ، بنکاک بھی متاثر
-
سوشل میڈیا 33 منٹ پہلے
جیبلی (Ghibli)اسٹائل میمز کیا؟ ٹرینڈ کیوں کررہی ہیں؟
-
فلم / ٹی وی 51 منٹ پہلے
سپر اسٹار سلمان خان نے ٹوٹی پسلی کے ساتھ ڈانس کیسے کیا؟