فلم / ٹی وی

خواتین کی جدوجہد پر مبنی 5 بہترین پاکستانی ڈرامے

پاکستانی ڈرامے معاشرتی المیوں کو عمدگی سے پیش کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے

تیمور احمد

خواتین کی جدوجہد پر مبنی 5 بہترین پاکستانی ڈرامے

پاکستانی ڈرامے معاشرتی المیوں کو عمدگی سے پیش کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے

فائل فوٹو:گوگل
فائل فوٹو:گوگل

پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری نے خواتین کی طاقت، جدوجہد، اور خود مختاری کو اجاگر کرنے کے لیے کئی معیاری ڈرامے بنائے ہیں، ان ڈراموں میں خواتین کے مسائل، ان کے حقوق کی جہدوجہد کو نمایاں انداز میں پیش کیا گیا ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ معاشرے سے لڑ کر کس طرح اپنے حقوق حاصل کیے جاسکتے ہیں اور بطور خاتون اپنا نام پیدا کیا جاسکتا ہے۔

پاکستانی ڈراموں کی خاصیت یہ ہے کہ یہ معاشرے کے پچیدہ مسائل کو بڑی عمدگی سے دکھاتے ہیں، پی ٹی وی کے دور سے لیکر آج تک کےپاکستانی ڈرامے معاشرتی المیوں کی تصویر کشی بہت شاندار طریقے سے کررہے ہیں۔

آج چونکہ یوم خواتین ہے تو اسی مناسبت سے وہ ڈرامے ہم نے آپ کے لیے چُنے ہیں جس میں خواتین کی جدوجہد کو نمایاں کرکے دکھایا گیا ہے۔

سرِ راہ:

اسکرین گریب گوگل
اسکرین گریب گوگل

آپ نے ایک ڈرامے میں معروف اداکارہ صبا قمر کو ٹیکسی چلاتے ہوئے دیکھا ہوگا، ٹیکسی چلاتے ہوئے صبا قمر کے اس ڈرامے کا کلپ سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہے۔

اس ڈرامے کا نام ’ سر راہ ‘ ہے، "سرِ راہ" ایک منفرد اور متاثر کن کہانی پر مبنی ڈرامہ ہے جو پاکستانی خواتین کے حقوق، ان کی جدوجہد اور خودمختاری پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ ڈرامہ نہ صرف روایتی کہانیوں سے مختلف ہے بلکہ اس میں سماجی مسائل اور خواتین کے حقوق کو بڑے منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

ڈرامے کی مرکزی کردار رمیلہ (صباقمر)ایک عام مگر ہمت والی لڑکی ہے جو اپنے والد کے بیمار ہونے کے بعد ٹیکسی ڈرائیور بننے کا فیصلہ کرتی ہے، ایک خاتون کے لیے اس پیشے کو اپنانا آسان نہیں ہوتا، مگر رمیلہ اپنی ہمت، صبر اور حوصلے سے ہر چیلنج کا سامنا کرتی ہے۔

یہ ڈرامہ معاشرے میں رائج صنفی تفریق، خواتین کے لیے مخصوص دقیانوسی خیالات اور ان کے حقوق کو اجاگر کرتا ہے۔

صبا قمر نے ایک مضبوط، خود مختار اور ہمت والی خاتون کا کردار ادا کیا ہے جو دقیانوسی خیالات کو چیلنج کرتی ہے۔

صنف آہن:

اسکرین گریب گوگل
اسکرین گریب گوگل

پاکستانی فوج دنیا کی بہترین افواج میں شمار کی جاتی ہے، پاکستانی فوج کا نام سنتے ہی اس میں جوانوں کا نام سنائی دیتا ہے جو اپنے ملک کے لیے جان کی بازی لگادیتے ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ پاکستانی فوج میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے جو اپنے ملک کے دفاع میں پیش پیش ہیں۔

اسی معلومات کو فراہم کرنے لے لئے ’صنف آہن ‘ نام کا ڈرامہ بنایا گیا،"صنفِ آہن" پاکستان کی پہلی خواتین پر مبنی ملٹری ڈرامہ سیریز ہے جو پاکستان آرمی میں شامل ہونے والی پانچ نوجوان لڑکیوں کی کہانی بیان کرتی ہے۔ 

ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح مختلف پس منظر اور طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے پاک فوج میں شمولیت اختیار کرتی ہیں اور ہر طرح کے چیلنجز کا سامنا کر کے ایک مضبوط اور باہمت سپاہی بن جاتی ہیں۔

یہ ڈرامہ پاکستانی خواتین کی طاقت، عزم، ہمت، اور خود مختاری کی بہترین عکاسی کرتا ہے اور یہ پیغام دیتا ہے کہ عورت کسی بھی میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو سکتی ہے۔

اس ڈرامے میں سجل علی، یمنیٰ زیدی، کبریٰ خان، دنانیر مبین، رمشا خان، سائرہ یوسف نے اہم کردار ادا کیے۔

"صنفِ آہن" کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے حد پسند کیا گیا، خاص طور پر ان خواتین نے جو خود بھی کسی بڑے خواب کو حاصل کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔

بھاگ آمنہ بھاگ

اسکرین گریب گوگل
اسکرین گریب گوگل

"بھاگ آمنہ بھاگ" ایک پاکستانی ٹیلی فلم ہے جو 2011 میں نشر کی گئی، اس کی کہانی ایک نوجوان لڑکی آمنہ کے گرد گھومتی ہے جو دوڑنے کا شوق رکھتی ہے اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے مشکلات کا سامنا کرتی ہے۔

فلم میں آمنہ کا کردار معروف اداکارہ آمنہ شیخ نے ادا کیا ہے، جبکہ ان کے ساتھ شہروز سبزواری، لبنیٰ اسلم، راشد فاروقی اور پارس مسرور نے اہم کردار نبھائے ہیں۔

ٹیلی فلم کی ہدایتکاری یاسر نواز نے کی ہے اور کہانی فرح عثمان نے تحریر کی ہے، یہ فلم پاکستانی ایتھلیٹ نسیم حمید کی زندگی سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے، جنہوں نے 2010 کے ساؤتھ ایشین گیمز میں 100 میٹر دوڑ میں سونے کا تمغہ جیتا تھا۔

"بھاگ آمنہ بھاگ" میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح آمنہ اپنے خاندان کی مخالفت کے باوجود اپنے دوست حارث کی مدد سے دوڑ میں کامیابی حاصل کرتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کرتی ہے،ٹیلی فلم میں خواتین کی طاقت، عزم اور حوصلے کو اجاگر کیا گیا ہے۔

ٹیلی فلم کو ناظرین کی جانب سے مثبت ردعمل ملا اور اسے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں خواتین کی مرکزی کرداروں پر مبنی ایک اہم پیش رفت قرار دیا گیا۔

"بھاگ آمنہ بھاگ" ایک متاثر کن کہانی ہے جو ناظرین کو حوصلہ اور امید دیتی ہے کہ محنت اور عزم سے کسی بھی خواب کو حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے۔

باغی:

اسکرین گریب گوگل
اسکرین گریب گوگل

"باغی" پاکستان کی مشہور سوشل میڈیا شخصیت قندیل بلوچ کی زندگی پر مبنی ڈرامہ ہے۔ یہ کہانی ایک عام سی گاؤں کی لڑکی فوزیہ بتول کی ہے جو اپنی شناخت بنانے اور ایک خودمختار زندگی گزارنے کے خواب دیکھتی ہے۔ وہ ایک روایتی، قدامت پسند ماحول میں پیدا ہوتی ہے جہاں عورتوں کو اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

فوزیہ بتول کا خاندان اس پر سخت پابندیاں عائد کرتا ہے، لیکن وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ شادی کے بعد جب اسے اپنے شوہر کے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو وہ گھر چھوڑ کر شہر چلی جاتی ہے۔ وہاں وہ مختلف مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ماڈلنگ اور سوشل میڈیا کی دنیا میں قدم رکھتی ہے۔

فوزیہ جلد ہی "قندیل بلوچ" کے نام سے مشہور ہو جاتی ہے، تاہم شہرت کے ساتھ ساتھ اسے تنقید، نفرت، اور خطرات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آخرکار، اسے اس کے اپنے بھائی کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے، جس سے یہ دکھایا گیا کہ معاشرہ عورتوں کو خودمختاری دینے کے لیے کتنا کمزور ہے۔

ڈرامہ سوشل میڈیا کے اثرات، خواتین کی جدوجہد، اور غیرت کے نام پر قتل جیسے حساس موضوعات کو اجاگر کرنے کے لیے سراہا گیا۔

دوبارہ:

اسکرین گریب گوگل
اسکرین گریب گوگل

اس ڈرامے میں معاشرے میں پائے جانے والے ایک تیبو کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بیوہ ہوجانے والی خواتین کی شادی کو زیر بحث لایا گیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ اگر کسی بڑی عمر کی شادی کسی چھوٹی عمر کے لڑکے کے ساتھ ہوجائے تو معاشرہ اس پر کیسے ردعمل دیتا ہے۔

کہانی کی مرکزی کردار مہرو (حدیقہ کیانی) ایک ایسی عورت ہے جو کم عمری میں ایک بڑی عمر کے شخص نواز (جاوید شیخ) سے شادی کرلیتی ہے۔

شادی کے بعد وہ اپنی زندگی شوہر اور بچوں کے تابع گزارتی ہے، جہاں اس پر سخت پابندیاں ہوتی ہیں، نواز ایک سخت گیر اور روایتی شخص ہوتا ہے، جو مہرو کی زندگی کو کنٹرول کرتا ہے اور اسے اپنے فیصلے خود کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

مہرو کی زندگی میں ایک بڑا موڑ اس وقت آتا ہے جب اس کا شوہر انتقال کر جاتا ہے، اس کے بعد وہ ایک آزاد زندگی گزارنے کا خواب دیکھتی ہے، مگر سماج اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

اسی دوران اس کی ملاقات ایک نوجوان لڑکے مہیر (بلال عباس خان) سے ہوتی ہے، جو ایک آزاد خیال اور خوش مزاج لڑکا ہے۔

دونوں کے درمیان دوستی ہو جاتی ہے اور مہیر مہرو کو وہ خوشیاں اور آزادی دینے کی کوشش کرتا ہے جو اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیں۔

وقت کے ساتھ، مہرو اور مہیر کے درمیان ایک خاص رشتہ بن جاتا ہے اور وہ شادی کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن ان کی شادی نہ صرف ان کے خاندانوں بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک دھماکہ خیز خبر بن جاتی ہے۔

مہرو کے بچے، خاص طور پر اس کا بیٹا اس کے فیصلے کو قبول نہیں کر پاتا اور اسے شرمندگی کا باعث سمجھتا ہے۔

دوسری طرف، مہیر کا خاندان بھی اس رشتے کو ناپسند کرتا ہے اور اسے کم عمری میں اس قدر بڑا فیصلہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔

ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ مہرو اور مہیر کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔

معاشرے کے دباؤ، خاندانی مخالفت اور روایتی سوچ کے باوجود، مہرو اپنے حق کے لیے لڑتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ عورت کی زندگی شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی، بلکہ وہ دوبارہ نئی شروعات کر سکتی ہے۔

تازہ ترین