فلم / ٹی وی

جاندار اداکاری سے مداحوں کے دل جیتنے والے پاکستانی فنکار

پاکستانی ڈراموں نے پچھلے 5 سالوں میں مواد اور مقبولیت کے لحاظ سے بہت ترقی کی ہے

سمرہ شکیل

جاندار اداکاری سے مداحوں کے دل جیتنے والے پاکستانی فنکار

پاکستانی ڈراموں نے پچھلے 5 سالوں میں مواد اور مقبولیت کے لحاظ سے بہت ترقی کی ہے

اسکرین گریب
اسکرین گریب

سال 2024ء پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کیلئے شاندار رہا جس میں 'کبھی میں کبھی تم' جیسے ڈراموں نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ڈرامہ ناظرین کے دل جیت لیے۔

ان ڈراموں نے رواں سال پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی 'فین بیس' میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے جس کا اعتراف پڑوسی ملک بھارت سے تعلق رکھنے والے فنکار و عوام بھی کرتے نظر آئے۔

پاکستانی ڈراموں نے اپنی منفرد اسٹوری لائن اور اسٹار کاسٹ کے سبب دنیا بھر میں منفرد پہچان بنالی ہے، پاکستان میں ڈرامے دیکھنا انٹرٹینمنٹ کے حصول کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔

پہلے پہل خواتین اپنے کام سے فراغت حاصل کرنے کے فوراً بعد ہی ٹیلی ویژن اسکرینز کے سامنے ڈیرہ جمالیتی تھیں لیکن اب یہ روایت پاکستانی مردوں کو بھی متاثر کرتی نظر آئی جہاں صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد حضرات بھی اب ڈراموں اور اسکی بہترین کہانیوں سے لطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں۔

بلاشبہ پاکستانی ڈراموں نے پچھلے پانچ سالوں میں مواد اور مقبولیت کے لحاظ سے بہت ترقی کی ہے، اگرچہ میڈیا کو سینسرشپ اور بڑے کارپوریٹ مونوپولی کے چیلنجز کا سامنا رہتا ہے لیکن پاکستانی ڈراموں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں کیونکہ جہاں دنیا میں جہاں کہیں بھی اردو زبان بولی یا سمجھی جاتی ہے وہاں ان ڈراموں نے عالمی سطح پر اپنی دھاک بٹھا رکھی ہے۔

ہم پاکستانی بخوبی جانتے ہیں کہ روزمرہ کی مصروفیات اور پریشانیوں کو بھلانے کا سب سے اچھا طریقہ ایک زبردست ڈرامہ سیشن ہوتا ہے اور اس سے زیادہ تسکین بخش کوئی چیز نہیں ہوتی جب وہ پاکستانی فیملی ڈرامے ہوں۔

آئیے کچھ اُن اداکاروں اور ڈراموں کی بات کرتے ہیں جنہیں آج کل ناظرین کی جانب سے بےحد پسند کیا جارہا ہے:

ڈرامہ 'میم سے محبت' کی کہانی :

اسکرین گریب
اسکرین گریب

ڈرامہ سیریل ‘کبھی میں کبھی تم’ نے اپنے منفرد Gen Z اسٹائل کے ساتھ سب کے دل جیتے تھے؟

اگر آپ اس ڈرامے کے مداح ہیں تو یقیناً آپ نے ڈرامہ سیریل 'میم سے محبت' کے بارے میں بھی سنا ہی ہوگا، کیونکہ ‘میم سے محبت’ وہی جادو دوبارہ لے کر آیا ہے، اور اس بار بھی کہانی کے پیچھےکوئی اور نہیں بلکہ ناقابل یقین فرحت اشتیاق ہی ہیں جن کے کریڈٹ میں 'متاعِ جاں ہے تو'، ‘ہم سفر’ اور ‘دیارِ دل’ جیسے شاہکار ہیں۔

فرحت اشتیاق کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، ان کی کہانیاں ہمیشہ دل کو چھو جانے والی ہوتی ہیں، جو محبت، جذبات، اور زندگی کے پیچیدہ پہلوؤں کو ایک منفرد انداز میں پیش کرتی ہیں۔ ‘میم سے محبت’ ان کا ایک اور شاہکار ہے، جو یقینی طور پر ناظرین کو مسحور کر رہا ہے۔

’میم سے محبت‘ کے نمایاں اداکاروں میں سوشل میڈیا سے اداکاری کی دنیا میں قدم رکھنے والی دنانیر مبین (روشی کے کردار میں) اور احد رضا میر (طلحہ کے کردار میں) شامل ہیں۔ طلحہ کے والد کا کردار معروف اداکار آصف رضا میر نے نبھایا ہے جو انکے حقیقی والد بھی ہیں۔

ڈرامے کی کہانی کی بات کی جائے تو طلحہ ایک سنگل پیرنٹ ہیں، جو اپنے بیٹے محید کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ محید کسی حادثے کے بعد صدمے سے گزر رہا ہے اور ایک چائلڈ سائیکولوجسٹ اور اسپیچ تھراپسٹ کے زیرِ علاج ہے۔

روشی کی بڑی بہن ماہی ایک انتہائی محنتی اور ذہین طالبہ ہے، جبکہ خود روشنی کا تعلیمی ریکارڈ خاصا خراب ہے۔ وہ سات مختلف اداروں کے داخلہ امتحانات میں ناکام ہوچکی ہے اور اپنی اس ناکامی کا جشن اپنی بہترین دوست کے ساتھ منانے کا فیصلہ کرتی ہے۔

اسی دوران ایک سیلفی لیتے ہوئے وہ طلحہ کو دیکھتی ہے جس کا اداس اور غمگین چہرہ اسے یہ سمجھنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ شاید اس کی گرل فرینڈ سبیقہ نے اسے چھوڑ دیا ہے۔

روشی کی والدہ، جو اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے بےحد سنجیدہ ہیں، یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ روشنی کو انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنی ہے۔ تاہم، روشنی کی حمایت کرنے والی واحد شخصیت اس کی پھوپھی، سلیقہ پھوپھو (فائزہ گیلانی) ہیں جو خود انجینئرنگ کے بجائے ایک گھریلو زندگی گزار رہی ہیں۔

روشی، سلیقہ پھوپھو کی کہانی سے متاثر ہوکر، یہ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ اپنی ماں کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے دعاؤں کا سہارا لے گی۔ وہ لائبریری سے مذہبی کتب چرا کر اپنی دعا کا آغاز کرتی ہے۔

فرحت اشتیاق کے تخلیق کردہ‘میم سے محبت’ کی کہانی اپنے منفرد اور جذباتی پلاٹ کے لیے مشہور ہورہی ہے۔ مومنہ دریدکی پروڈکشن نے اس سیریل کو ایک شاہکار بنایا ہے، اور علی حسن کی ہدایتکاری نے اس میں نئی جان ڈال دی ہے۔ یہ تمام عوامل اس سیریل کو ایک شاہکار بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

‘میم سے محبت’ کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اس کی منفرد کہانی ہے، جو مزاح اور جذبات کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ احد رضا میر کی شاندار اداکاری نے ناظرین کے دل جیت لیے ہیں۔ ان کی موجودگی اس ڈرامے کو نہ صرف مقبول بلکہ یادگار بھی بناتی ہے۔

اس ڈرامے میں احد رضا میر کیساتھ نئی ابھرتی ہوئی اداکارہ دنانیر مبین نے اپنے منفرد کردار کے ذریعے ناظرین کو حیران کر دیا ہے۔ ان کی بہترین اداکاری نے نہ صرف ناظرین بلکہ ناقدین کو بھی متاثر کیا ہے۔

دنانیر کی اس پرفارمنس نے انہیں ایک ابھرتی ہوئی سٹار کے طور پر ثابت کر دیا ہے، ان کی اور احد کی آن اسکرین کیمسٹری ناظرین کے لیے ایک خاص کشش رکھتی ہے۔

‘میم سے محبت’ کی کہانی نہ صرف محبت اور جذبات کے گرد گھومتی ہے بلکہ اس میں مزاح اور زندگی کے روزمرہ کے پہلو بھی بھرپور انداز میں شامل ہیں۔احد رضا میر اور دنانیر مبین کی شاندار کیمسٹری اس کہانی کو مزید دلچسپ بناتی ہے۔

ڈرامے کے کردار حقیقت سے کوسوں دور ہیں اور کسی پریوں کی کہانی سے نکلے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ شاندار محل نما گھر، خوبصورت باغات اور عالیشان فرنیچر اس سیریل کو ایک مصنوعی اور غیر حقیقی تاثر دیتے ہیں۔

اگر آپ پریوں کی کہانیوں جیسے سنڈریلا یا ریپنزل کے مداح ہیں، تو یہ آپ کے لیے بہترین ہو سکتا ہے۔

‘میم سے محبت’ آپ کو ہنسانے، رلانے، اور محبت کے نئے رنگ دکھانے ہربدھ اور جمعرات کی رات 8 بجے HUM TV پر نشر کیا جاتا ہے۔

دنانیر مبین بطور روشی

دنانیر مبین نے روشی کا کردار اس قدر فطری اور زندگی سے قریب تر انداز میں نبھایا کہ وہ دلوں میں بس گئیں۔ ان کی معصومیت اور حقیقی جذبات ہر مکالمے اور ہر منظر میں صاف دکھائی دیتے ہیں، چاہے وہ محید سے بات کر رہی ہوں یا دادا سے۔ 

ہر منظر میں ان کا جذباتی اظہار اتنا فطری اور جاندار ہوتا ہے کہ ناظرین ان کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ ان کی اداکاری کی خاص بات ان کے چہرے کے تاثرات ہیں، جو بغیر کہے بہت کچھ بیان کر جاتے ہیں۔

احد رضا میر بطور طلحہ

 احد رضا میر نے طلحہ کے کردار میں جذباتی کشمکش کو بے حد مہارت سے پیش کیا ہے۔ طلحہ کا دکھ، پچھتاوا اور اندرونی تنازعہ سب کچھ ان کی اداکاری میں واضح طور پر جھلکتا ہے۔ احد کی باڈی لینگویج بھی کردار کی گہرائی کو ظاہر کرنے میں کامیاب رہی ہے، جس نے ان کی پرفارمنس کو مزید پختہ بنا دیا ہے۔

'دل والی گلی میں' کی کہانی:

اسکرین گریب
اسکرین گریب

سجل علی ڈرامے میں 'خدیجہ بلال' عرف 'ڈیجو' کا کردار نبھا رہی ہیں جبکہ حمزہ سہیل 'مجتبیٰ صدیقی' عرف 'مجّی' کا کردار نبھاتے دکھ رہے ہیں۔

ڈرامے کی کہانی دو ایسے نوجوان جوڑے کے گرد گھوم رہی ہے جو پھوپھی ماموں کے بچے ہیں، ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں، شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن دونوں کی مائیں اس شادی کے خلاف تھیں اس لیے انہوں نے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا فیصلہ کیا لیکن عدالت میں جج نے 'مجّی' کی والدہ 'دردانہ صدیقی' کو پہچان لیا جو اسکول پرنسپل ہیں اور انہیں اسی وقت کال کر کے پورا ماجرا بتا دیتے ہیں۔

دونوں کے والدین کو عدالت بُلایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ لڑکا لڑکی بالغ ہیں اس لیے دونوں نکاح کرنے کے اہل ہیں، لہٰذا والدین یا تو خود شادی کروادیں ورنہ عدالت کورٹ میرج کروادیگی۔

عدالت میں ہی کچھ دیر گزارنے کے بعد دونوں ارینج میرج کروانے کی ہامی بھر لیتے ہیں جسکے بعد ڈرامے میں شادی کی تقریب دکھائی گئی۔

اس تقریب میں سجل علی مرون عروسی جوڑے میں ملبوس نظر آئیں جو 70 کی دہائی کی پاکستانی عروسی لُک کی یادیں تازہ کر گیا۔

سجل علی سادہ چھوٹی قمیص کے ساتھ بنارسی کپڑے سے تیار کردہ غرارہ پہنی نظر آئیں جس کے ساتھ انہوں نے سنہری کرن بیل لگے میچنگ دوپٹے کو سر سے اوڑھ کر لُک مکمل کی جبکہ اپنے ناز و انداز میں بھی شرم و حیا کا عنصر شامل رکھا جو انکو مزید روایتی مشرقی حسن بخشتا نظر آیا۔

حمزہ سہیل بطور مجی 

حمزہ سہیل نے مجی کے کردار کو ایسے پیش کیا کہ ناظرین کو وہ بے چارہ لگتا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی ہم اس کے حق میں دعائیں بھی کرتے ہیں۔ حمزہ نے مجی کے معصوم مگر درد بھرے حالات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا، جس کی وجہ سے کردار ناظرین کے دل میں جگہ بنا لیتا ہے۔

سجل علی بطور دیجو 

سجل علی نے دیجو کے کردار کو انتہائی لاجواب انداز میں نبھایا ہے۔ ان کی خاموشی میں بھی اتنی گہرائی اور اظہار موجود ہے کہ ناظرین بغیر مکالمے کے ہی دیجو کے احساسات کو سمجھ لیتے ہیں۔ ان کے چہرے کے تاثرات ہر جذبات کو بغیر الفاظ کے بیان کر دیتے ہیں، جو ان کی اداکاری کا سب سے منفرد پہلو ہے۔

عظمیٰ حسن بطور تمکینت 

عظمیٰ حسن کی اداکاری میں جو فطری پن اور حقیقت ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ ان کے چہرے کے تاثرات ہر منظر میں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں، جو ناظرین کو محظوظ کرتے ہیں۔ تمکینات کے کردار میں ان کا ہر ایک تاثراتی لمحہ بالکل فطری اور حقیقی لگتا ہے۔

ثاقب سمیر بطور اشتیاق 

اشتیاق کے کردار میں ثاقب سمیر نے بے حد آرام دہ اور پختہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی اداکاری اس قدر فطری ہے کہ ناظرین کردار کے ساتھ پوری طرح جڑ جاتے ہیں اور ان کے کام سے مکمل طور پر لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ڈرامہ 'دستک' کی کہانی:

اسکرین گریب
اسکرین گریب

ڈرامہ سیریل ‘دستک‘ کی کہانی جذباتی کشمکش، سماجی مسائل اور خواتین کی زندگی کے گرد گھومتی ہے، جس میں مرکزی کردار کرن (سوہائی علی ابڑو) نے ادا کیا ہے۔ 

یہ ڈرامہ اس عورت کی زندگی کی جدوجہد کو پیش کرتا ہے جو اپنے جذبات اور معاشرتی دباؤ کے درمیان پھنس کر رہ جاتی ہے۔ کرن ایک ایسی عورت ہے جو اپنی زندگی میں صحیح فیصلے کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے، لیکن حالات اور رشتے اسے کئی چیلنجز کا سامنا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

سوہائی علی ابڑو اس ڈرامے میں کرن کا مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔ کرن ایک مضبوط مگر پریشان حال عورت ہے جو اپنی زندگی میں صحیح اور غلط کے درمیان کشمکش کا شکار ہے۔ 

کرن کو ایک اہم موڑ پر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ اپنے شوہر، سیف، کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا اپنی زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ اس کی جدوجہد، پریشانیاں، اور سماج کی طرف سے لگائی گئی پابندیاں اس ڈرامے کی کہانی کا اہم حصہ ہیں۔

سوہائی علی بطور کرن 

سوہائی علی نے کرن کے کردار میں اس کی جدوجہد اور تکلیف کو شاندار انداز میں پیش کیا ہے۔ 

وہ ناظرین کو اس کشمکش میں مبتلا کر دیتی ہیں کہ کیا کرن کو اپنے شوہر سیف کے ساتھ رہنا چاہیے یا اسے چھوڑ دینا چاہیے؟ ان کی اداکاری ناظرین کو کرن کے درد کو محسوس کرنے اور اس کے حالات سے جڑنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

ڈرامہ سیریل ‘قرضِ جاں‘ کی کہانی:

اسکرین گریب
اسکرین گریب

ڈرامہ سیریل ‘قرضِ جاں‘ ایک جذباتی اور سماجی کہانی پر مبنی ڈرامہ ہے جس میں مرکزی کردار مشہور اداکارہ یمنیٰ زیدی نبھا رہی ہیں۔

 یمنیٰ زیدی نے اس ڈرامے میں نشویٰ کا کردار ادا کیا ہے، جو اپنی ماں کی خوشیوں اور خاندان کے استحکام کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ نشویٰ کا کردار ایک نرم دل، معصوم اور وفادار بیٹی کا ہے جو اپنے ارد گرد کے چیلنجز اور مشکلات کا سامنا بڑی ہمت اور صبر سے کرتی ہے۔

ڈرامے کی کہانی ایک ایسی بیٹی کی زندگی کے گرد گھومتی ہے جو اپنی ماں کی محبت اور تحفظ کے لیے سماج اور رشتے داروں کے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔

نشویٰ کی زندگی میں کئی جذباتی اور معاشرتی چیلنجز آتے ہیں، لیکن وہ اپنی مضبوطی اور استقلال سے ہر آزمائش کا سامنا کرتی ہے۔ یمنیٰ زیدی نے اپنی شاندار اداکاری اور گہرے جذباتی تاثرات کے ساتھ اس کردار کو ناظرین کے دلوں میں زندہ کر دیا ہے۔

‘قرضِ جاں‘ میں سماجی مسائل، خاندان کے اندرونی تضادات، اور عورت کی زندگی میں آنے والے مشکلات کو بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے، جس نے ناظرین کے دلوں کو چھو لیا ہے۔ 

یمنیٰ زیدی کی اداکاری نے اس ڈرامے کو کامیابی کی بلندیوں تک پہنچایا، اور ان کی کارکردگی کو ناقدین کی جانب سے بھی سراہا گیا ہے۔

یمنیٰ زیدی بطور نشویٰ 

یمنیٰ زیدی نے نشویٰ کے کردار میں بیٹی کی کمزوری اور مضبوطی کو بھرپور طریقے سے پیش کیا ہے۔

 ان کی اداکاری نے ناظرین کے دلوں کو جیت لیا ہے، جو ایک ایسی بیٹی کی کہانی ہے جو اپنی ماں کی خوشی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

تزئین حسین بطور بسمہ

 تزئین حسین نے بسمہ کے کردار میں ایک ایسی ماں کی جذباتی کہانی کو پیش کیا ہے جو اپنی مشکلات کے باوجود اپنی بیٹی کے تحفظ کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ ان کی خاموش غصے اور تلخی کو اتنے فطری انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ ناظرین کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔

سلمیٰ ظفر بطور سدرا 

سلمیٰ ظفر نے سدرا کے کردار میں ایک ایسی عورت کے جذبات کو پیش کیا ہے جسے اپنے ہی گھر میں کوئی اہمیت یا وقعت حاصل نہیں۔ باہر سے وہ بظاہر مضبوط اور خود مختار لگتی ہے، لیکن حقیقت میں وہ ایک ایسی عورت ہے جو اپنے آپ پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہے اور اپنی کمزوری کی وجہ سے بولنے کی ہمت نہیں کر پاتی۔

ڈرامہ 'آس پاس' کی کہانی:

اسکرین گریب
اسکرین گریب

‘آس پاس‘ یکم رمضان سے جیو ٹی وی پر نشر کیا جا رہا ہے، اور اس کی مرکزی کاسٹ میں علی انصاری اور لائبہ خان شامل ہیں، جن کی رومانوی کہانی پر مبنی یہ ڈرامہ ہے۔ دیگر اداکاروں میں ثمینہ احمد، سیفی حسن، صبا فیصل، نمرہ شاہد اور فہمہ اعوان شامل ہیں۔

ڈرامے کی ہدایت کاری محمد افتخار افی نے کی ہے، جبکہ اس کی کہانی ثمرہ بخاری نے تحریر کی ہے۔

ڈرامے کے جاری کردہ ٹیزرز کو دیکھ کر ناظرین نے کاسٹ کی تعریف کی اور امید ظاہر کی کہ ‘آس پاس‘ کی کہانی بھی دلچسپ ہوگی۔ ایک ٹیزر میں جان ریمبو، صاحبہ اور ان کے بیٹے احسن افضل کو بھی دکھایا گیا ہے، جس نے ناظرین کی دلچسپی کو مزید بڑھا دیا ہے۔

علی انصاری اور لائبہ خان کی جوڑی کو ڈرامہ سیریل ‘کفارہ میں ان کی اسکرین کیمسٹری نے مداحوں کو بہت متاثر کیا تھا، اس لیے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ انہیں دوبارہ ایک ساتھ دیکھنے کے لیے ان کا انتخاب کیا گیا ہے۔

’آس پاس‘ کی کہانی میں ہمیں یقیناً ایک جدید محبت کی کہانی، یا شاید ایک خاندان کی لڑائی دکھائی دے گی جو ان کے رشتہ کو چیلنج کرتی ہے۔ اس میں کچھ مزاحیہ لمحات بھی ہو سکتے ہیں جب یہ دونوں عجیب و غریب رشتہ داروں یا غیر متوقع حالات کا سامنا کرتے ہیں۔

علی انصاری بطور ڈاکٹر سہام

 علی انصاری نے ڈاکٹر سہام کے کردار میں سادگی اور وطن پرستی کا خوبصورت امتزاج پیش کیا ہے۔ ان کی اداکاری میں وہ سادگی اور وقار ہے جو اس کردار کو ناظرین کے لیے دلکش اور پسندیدہ بناتا ہے۔

لائبہ خان بطور عرشیا

لائبہ خان نے عرشیا کے کردار کو بڑی ہمت اور جرات کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کی پرفارمنس میں یہ خاصیت ہے کہ وہ اپنی ظاہری خوبصورتی کی فکر کیے بغیر، کردار کی گہرائی میں ڈوب کر اسے نبھا رہی ہیں۔

تازہ ترین