انفوٹینمنٹ

’ہائی وے‘ کی واپسی، امتیاز علی نے خود کو ’خوش نصیب‘ کیوں کہا؟

20 سال، کئی کلٹ کلاسکس اور ایک خواب جیسا سفر – امتیاز علی

Web Desk

’ہائی وے‘ کی واپسی، امتیاز علی نے خود کو ’خوش نصیب‘ کیوں کہا؟

20 سال، کئی کلٹ کلاسکس اور ایک خواب جیسا سفر – امتیاز علی

’ہائی وے‘ کی واپسی، امتیاز علی نے خود کو ’خوش نصیب‘ کیوں کہا؟

2007 میں ریلیز ہونے والی 'جب وی میٹ'  اور 2009 میں ریلیز ہونے والی'لو آج کل'  جیسی کلاسک فلموں کے دو دہائیوں بعد بھی، فلم ساز امتیاز علی اپنی شوبز کی دنیا کے سفر کو غیر حقیقی قرار دیتے ہیں۔

امتیاز علی2005 میں ریلیز ہونے والی اپنی پہلی فلم 'سوچا نہ تھا' کے بعد فلم انڈسٹری میں 20 سال مکمل کر رہے ہیں۔

اپنے اس سفر کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک خواب جیسا سفر ہے، میں نے کبھی توقع نہیں کی تھی کہ میں یہاں ہوں گا۔ آج بھی یقین نہیں آتا کہ میں اتنا دلچسپ کام کر رہا ہوں اور اس کا معاوضہ بھی مل رہا ہے، میں دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان ہوں، خاص طور پر اس لیے کہ مجھے فلم انڈسٹری میں اجنبی لوگوں کی طرف سے بھی سپورٹ ملی۔‘

امتیاز علی کا یہ 20 سالہ فلمی سفر 2024 کی کامیاب فلم 'چمکیلا' کے ساتھ مکمل ہوتا محسوس ہو رہا ہے، جو ناقدین اور ناظرین دونوں کی جانب سے بےحد سراہا گیا۔ 

تاہم، اس وقت ان کے جوش و خروش کی ایک اور بڑی وجہ ہے  2014 میں ریلیز ہونے والی فلم 'ہائی وے' کا دوبارہ سینما گھروں میں آنا۔ اس سے پہلے 'جب وی میٹ' اور 'راک اسٹار'  کی بھی کامیاب ری ریلیز ہو چکی ہے۔

53 سالہ امتیاز علی 'ہائی وے' کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ‘میری ابتدائی سوچ یہ تھی کہ میں کسی زیادہ تجربہ کار اور شاید عمر میں بڑی اداکارہ کو کاسٹ کروں گا۔ لیکن جب میں عالیہ بھٹ سے ملا، تو مجھے محسوس ہوا کہ اس میں جذباتی گہرائی موجود ہے اور یہ کردار اس پر بہت دلچسپ لگے گا۔ مجھے ایک ایسا پیکج ملا جس میں جذباتی شدت بھی تھی اور ایک نوجوان لڑکی کا معصومانہ پن بھی۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے عالیہ کو کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

'ہائی وے' کے پیچیدہ موضوعات اور فلم سازی کے چیلنجز کے بارے میں بات کرتے ہوئے امتیاز علی نے کہا کہ فلم 'ہائی وے' مختلف پیچیدہ موضوعات پر مبنی تھی، جن میں اسٹاک ہوم سنڈروم جیسے نفسیاتی پہلو بھی شامل تھے۔ 

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسٹاک ہوم سنڈروم جیسے نفسیاتی پہلو پر کام کرنے کے دوران انہیں کسی قسم کے خدشات یا مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تو امتیاز نے کہا کہ ‘سب نے میری حوصلہ افزائی کی۔ دراصل، میں پہلے ہی 'تماشہ'  بنانے کے لیے تیار تھا، لیکن رنبیر کپور نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اس سے پہلے 'ہائی وے' بنا لوں کیونکہ ہمارے پاس تھوڑا وقت تھا۔ فلم کے پروڈیوسر ساجد ناڈیاڈوالا بھی بہت حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ ہر کوئی اس کہانی کو پسند کر رہا تھا، حالانکہ یہ کچھ مختلف تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ اگر میں اسے کم بجٹ میں بنا لوں، تو زیادہ تجرباتی ہونے کی گنجائش ہوگی۔‘

امتیاز علی اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں فلم کی دوبارہ ریلیز پر بہت پرجوش ہوں، 'ہائی وے' خواتین کے احساسات، ان کی پریشانیوں، اور معاشرے میں ان کی طاقت کے بارے میں ایک گہرا تجزیہ پیش کرتی ہے۔

’ہائی وے‘ میں ایشوریا کی جگہ عالیہ نے کیسے لی؟

عالیہ بھٹ نے سال 2012 میں فلم 'اسٹوڈنٹ آف دی ایئر' کے ساتھ بالی وڈ میں ایک عمدہ ڈیبیو کیا تھا لیکن انہیں زیادہ پذیرائی امتیاز علی کی ہدایت کاری میں بننے والی دوسری فلم ہائی وے  کے ساتھ ملی۔

ایک انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے مشہور ڈائریکٹر نے انکشاف کیا کہ اس فلم کے لیے عالیہ پہلی پسند نہیں تھیں اور ویرا کے کردار کی عمر بھی مختلف تھی۔

امتیاز علی نے کہا کہ وہ 30 سال سے اوپر کی ایک خاتون کو کاسٹ کرنا چاہتے تھے اور یہ اس طرح کی فلم تھی کہ وہ ایشوریا رائے کو شاید بغیر میک اپ کے کاسٹ کرنا چاہتے تھے، لیکن عالیہ سے 'لو شو تے چکن کھرانہ' کی اسکریننگ کے موقع پر امتیاز علی کی ملاقات نے خیالات بدل ڈالے۔

اس وقت تک عالیہ کی فلم ریلیز ہو چکی تھی لیکن امتیاز علی نے وہ فلم نہیں دیکھی تھی۔

ہدایت کار کے مطابق اسکریننگ میں ، میں نے عالیہ سے بات کرنا شروع کی اور محسوس کیا کہ اس میں بہت گرمجوشی ہے اور جذبات سے بھرپور ہے، میں نے بات چیت کا رخ فلم 'ہائی وے' کی طرف موڑا اور ان سے گھر، معاشرے وغیرہ کے بارے میں بات کرنا شروع کی، جس سے مجھے ان کی سچی آواز سنائی دینے لگی اور لگا کہ یہ وہ آواز ہے جو عمر کے ساتھ زیادہ نہیں بدلے گی'۔

امتیاز علی نے یہ بھی کہا کہ میں 30 کی دہائی کی ایک ایسی خاتون کو کاسٹ کرنا چاہتا تھا جو زیادہ سمجھدار ہو اور جس کی زندگی میں ایسے تجربات ہوں جن کے بارے میں وہ فلم میں بات کرنے جا رہی تھی لیکن عالیہ سے ملنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ یہی وہ جذباتی گہرائی ہے جس کی میں تلاش کر رہا تھا۔

امتیاز علی نے مزید کہا کہ میں نے اسے 20-30 پیجز کا اسکرپٹ دیا جو ایک ناول کی طرح لکھا گیا تھا، اس نے مجھے ایک دن فون نہیں کیا جس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ دراصل ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اسے کہانی پسند آئی تو عالیہ نے جواب دیا کہ اسے بہ زیادہ پسند آئی ہے اور جس طرح اس نے یہ کہا تھا اس سے محسوس ہوا کہ وہ اس نے کہانی کو محسوس کیا ہے۔

امتیاز علی نے بتایا کہ جب میں نے عالیہ سے پوچھا کہ کیا وہ اس پر کام کریں گی تو انہوں نے جواب دیا، 'کیا ہم اس کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟' اس کا عام طور پر مطلب یہ ہوتا ہے کہ اداکار ایسا نہیں کرنا چاہتا۔

لیکن امتیاز نے ان سے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور بتایا کہ 'میں ان کے گھر گیا، بھٹ صاحب (والد مہیش بھٹ) نے عالیہ سے کہا کہ 'آپ کو یہ کرنا چاہیے، وہ ایک اچھے ڈائریکٹر ہیں'۔

اس نے یہ بھی وضاحت کی کہ وہ تذبذب کا شکار تھی کیونکہ اسے یقین نہیں تھا کہ کیا وہ اسکرپٹ میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے وہ کر پائے گی۔

فلم کی کہانی:

2014 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ہائی وے‘ ایک جذباتی اور روحانی سفر کی کہانی ہے، جو خوبصورت لیکن سخت پہاڑی مناظر میں ترتیب دی گئی ہے۔ یہ فلم نہ صرف ایک غیر معمولی کہانی بیان کرتی ہے بلکہ ہمالیہ کے دلکش مناظر کے ذریعے ایک گہری روحانی کیفیت بھی پیدا کرتی ہے۔

کہانی ویرا (عالیہ بھٹ) کے گرد گھومتی ہے، جو ایک امیر اور بااثر خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ ویرا، اپنی منگیتر کے ساتھ رات کے وقت شہر سے باہر جاتی ہے لیکن ایک اتفاقی واقعے کے نتیجے میں اغوا کر لی جاتی ہے۔ اغوا کرنے والا مہابیر (رندیپ ہودا)، ایک سخت مزاج مجرم ہے، جو اپنے جرائم کی دنیا سے بچنے کے لیے اسے یرغمال بناتا ہے۔

ویرا اور مہابیر کا سفر شمالی ہندوستان کی مختلف وادیوں اور پہاڑوں سے گزرتا ہے۔ مہابیر، ویرا کو اپنے ساتھ لے کر مختلف چھوٹے دیہاتوں، دریاؤں، اور پہاڑوں کے راستے چلتا ہے تاکہ پولیس سے بچ سکے۔ جیسے جیسے یہ سفر آگے بڑھتا ہے، فلم میں ہمالیہ کے شاندار اور خاموش مناظر دکھائے جاتے ہیں، جو کہانی کو گہرائی اور خوبصورتی بخشتے ہیں۔

پہاڑ اس فلم میں صرف ایک پس منظر نہیں بلکہ کہانی کے کرداروں کے جذباتی سفر کی عکاسی کرتے ہیں۔ویرا، جو اپنی زندگی کے دباؤ اور بندھنوں سے بیزار ہے، پہاڑوں کی کھلی فضا اور وسیع وادیوں میں آزادی محسوس کرتی ہے۔ یہ مناظر اس کے جذباتی بوجھ کو ہلکا کرنے اور اسے زندگی کی خوبصورتی دیکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ فلم کے دوران، دونوں کرداروں میں ایک روحانی تبدیلی آتی ہے۔ مہابیر، جو زندگی سے ناراض اور سخت دل ہے، پہاڑوں کے سکون میں اپنی ماضی کی تلخیوں کو بھولنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری طرف، ویرا اپنی کمزوریوں کو پیچھے چھوڑ کر ایک مضبوط اور آزاد عورت بن جاتی ہے۔

فلم کا ایک یادگار منظر وہ ہے جب ویرا اور مہابیر ہمالیہ کی اونچی وادیوں میں پہنچتے ہیں۔ برف سے ڈھکے پہاڑ اور خاموش ماحول اس لمحے کو بہت خاص بناتے ہیں، جہاں ویرا اپنی زندگی کے مسائل کو بھول کر سکون محسوس کرتی ہے۔

ایک اور منظر میں ویرا ایک خوبصورت پہاڑی گاؤں میں مہابیر کے ساتھ وقت گزارتی ہے، جہاں وہ سادہ زندگی کی خوبصورتی کو سمجھتی ہے۔

یہ فلم دکھاتی ہے کہ پہاڑ نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی سکون اور آزادی کی علامت ہیں۔ ویرا اپنی زندگی میں پہلی بار یہ سمجھتی ہے کہ خوشی اور سکون پیسے یا عیش و آرام میں نہیں بلکہ فطرت کے قریب ہونے اور اپنی زندگی کے حقیقی معنی تلاش کرنے میں ہے۔

تازہ ترین