افطار اور سحری، عبادت یا فوٹو شوٹ؟
کیا ہم اس وقت کی سادگی اور اخلاص کو قربان کر رہے ہیں؟

رمضان المبارک کا مہینہ روحانی ترقی، عبادات اور روایات کے حسین امتزاج سے مزین ہوتا ہے۔ ہر سال جب یہ بابرکت مہینہ آتا ہے، دنیا بھر کے مسلمان ایک روحانی ماحول میں ڈوب جاتے ہیں۔ لیکن آج کے جدید دور میں ایک اہم سوال اٹھتا ہے: کیا ہماری عبادات اور روایات سوشل میڈیا کے اثرات سے متاثر ہو رہی ہیں؟
افطار اور سحری، عبادت یا فوٹو شوٹ؟
ماضی میں افطار کا وقت سادگی اور سکون سے لبریز ہوتا تھا، جہاں لوگ کھجور اور پانی سے روزہ افطار کر کے اجتماعی دعائیں کیا کرتے تھے۔ لیکن آج جب افطار کا وقت قریب آتا ہے، سوشل میڈیا پر ‘افطار کی جھلکیاں‘ اور ‘آج کے پکوان‘ کی تصاویر اور ویڈیوز کا سیلاب آجاتا ہے۔
کیا ہم اس وقت کی سادگی اور اخلاص کو قربان کر رہے ہیں؟ کیا ہم افطار کا لطف اٹھا رہے ہیں یا سوشل میڈیا پر ‘پرفیکٹ شاٹ‘ حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں؟
تراویح اور عبادات، روحانی سکون یا لائیو اپ ڈیٹس؟
رمضان کی راتوں میں عبادات کا ایک مخصوص نورانی ماحول ہوتا ہے، مگر اب یہ بھی سوشل میڈیا کے اثر سے محفوظ نہیں رہا۔ کچھ لوگ عبادات کے لمحات میں مزید روحانیت کے بجائے ‘چیک ان‘ اور ‘لائیو اپ ڈیٹس‘ دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
قرآن خوانی اور اعتکاف کے لمحات بھی بہت سی جگہوں پر ‘وی لاگنگ‘ اور ‘کانٹینٹ کریئیشن‘ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم عبادات خلوصِ دل سے کر رہے ہیں یا صرف دکھاوے کے لیے؟
نیکی کا سوشل میڈیا اسکور؟
رمضان نیکیوں کا مہینہ ہے، اور سوشل میڈیا پر ہر روزہ دار اپنی نیکیوں کو نمایاں کرنے میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ کتنے راشن بیگز تقسیم کیے گئے؟ کتنے مستحقین کی مدد کی؟ کتنی تراویح مکمل کیں؟
یہ سب سوشل میڈیا پر شیئر کرنا ایک عام رواج بن چکا ہے۔ حالانکہ دینِ اسلام میں نیکی کو خفیہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیکی کرنے سے زیادہ اسے ‘وائرل‘ کرنا اہم ہوگیا ہے۔
سوشل میڈیا کا مثبت پہلو
یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ سوشل میڈیا کا رمضان پر صرف منفی اثر ہے۔ بہت سے علماء اور دینی رہنما سوشل میڈیا کے ذریعے مثبت پیغامات، قرآن و حدیث کے دروس اور روحانی رہنمائی فراہم کر رہے ہیں۔
زکوٰۃ اور صدقات کے حوالے سے شعور بڑھانا، آن لائن اسلامی لیکچرز کے ذریعے لوگوں کو دین سے جوڑنا، اور عبادات کے بارے میں مفید معلومات فراہم کرنا، یہ سب سوشل میڈیا کے مثبت پہلو ہیں جو اس پلیٹ فارم کو دین کی ترویج کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔
کیا ہمیں توازن کی ضرورت ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا نے ہماری زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی عبادات اور روایات کی روحانیت کو نظرانداز کریں۔ ہمیں اپنی زندگی میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
عبادات کو خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے انجام دیں، نہ کہ دنیا کو دکھانے کے لیے۔ نیکی کو خفیہ رکھیں اور سوشل میڈیا کا استعمال دینی تعلیمات سیکھنے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کریں، نہ کہ صرف شہرت حاصل کرنے کے لیے۔
اگر ہم سوشل میڈیا کو ایک مثبت ذریعہ بنائیں اور اپنی عبادات کی اصل روح کو برقرار رکھیں، تو یہ ہمارے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ کیوں نہ اس رمضان ہم یہ عہد کریں کہ ہماری عبادات صرف اللہ کے لیے ہوں گی، نہ کہ کسی لائیک یا شیئر کے لیے؟
-
پاکستان -291 سیکنڈ پہلے
پی ایس ایل ترانہ تنازع، علی ترین کو ’مردوں کا ملالہ‘ کا خطاب مل گیا
-
عالمی منظر 7 منٹ پہلے
میانمار میں7.7 شدت کا زلزلہ، بنکاک بھی متاثر
-
سوشل میڈیا 13 منٹ پہلے
جیبلی (Ghibli)اسٹائل میمز کیا؟ ٹرینڈ کیوں کررہی ہیں؟
-
فلم / ٹی وی 31 منٹ پہلے
سپر اسٹار سلمان خان نے ٹوٹی پسلی کے ساتھ ڈانس کیسے کیا؟