رجب بٹ کیلئے مشکل پیدا کرنے والی دفعہ 295A اور C کیا ہیں؟
پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کی تاریخ کا تفصیلی جائزہ

تنازعات میں گھرے معروف پاکستانی یوٹیوبر رجب بٹ کو ان دنوں توہین مذہب کے الزامات کا سامنا ہے اور ان کیخلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 (اے) اور 295 (سی) کی تحت مقدمہ بھی درج کیا جا چکا ہے۔
یوٹیوبر رجب بٹ پہلے بھی کئی بار مختلف تنازعات کا شکار رہے ہیں، اس سے قبل شیر کا بچہ رکھنے کے جرم میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا اور انہیں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
رجٹ بٹ کی ایک حالیہ ویڈیو میں انہوں نے اپنے خلاف پچھلی دفعات کے نام پر نیا پرفیوم ’295‘ لانچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ویڈیو میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کے استاد آنجہانی بھارتی گلوکار سدھو موسے والا پر بھی اسی طرح کے قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، تاہم بعدازاں رجب بٹ کی اِس ویڈیو کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ڈیلیٹ کردیا گیا تھا۔
پرفیوم کے نام پر سوشل میڈیا پر تنقید کی گئی کیوں کہ اس میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) میں توہین مذہب کے قانون کا حوالہ دیا گیا ہے۔
رجب بٹ کے پرفیوم کا سدھو موسے والا سے کیا تعلق؟
دراصل سدھو موسے والا اپنے گانوں میں قانونی شقوں سے متعلق اصطلاحات کا ذکر کرتے تھے اور ان پر تنقید بھی کیا کرتے تھے، وہ قانون اور اس سے فائدہ اٹھنے والے سماج کے خلاف اپنے گانوں کو ترتیب دیتے اور ان پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔
ان کے ایک گانے کا نام 295 ہے جو تعزیرات ہند کی ایک دفعہ ہے، تعزیرات ہند کی دفعہ 295 (اے) ان لوگوں پر لاگو ہوتی ہے جو مذہبی جذبات بھڑکاتے ہیں۔
رجب بٹ کیخلاف ایف آئی آر
اس معاملے پر رجب بٹ کے خلاف ایک شہری کی درخواست پر لاہور کے تھانہ نشتر ٹاؤن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں پیکا ایکٹ اور توہین مذہب کی دفعات شامل کی گئی تھیں، تاہم پولیس کے مطابق رجب بٹ ان دنوں عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں ہیں اس لیے انہیں ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔
شدید ردعمل، فتوے اور ایف آئی آر درج ہونے کے بعد رجب بٹ نے ایک ویڈیو پیغام میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر معافی مانگتے ہوئے اپنے نئے پرفیوم کے نام پر معافی مانگی تھی اور اس کی فروخت بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بعدازاں رجب بٹ نے مسجد الحرام کے مطاف میں حالت احرام میں کھڑے ہوکر اپنی ایک اور ویڈیو ریکارڈ کروائی اور ایک بار پھر معافی مانگتے ہوئے علمائے کرام، حکومت پنجابِ اور پاک فوج سے انصاف کی اپیل کی۔
رجب بٹ کے خلاف مقدمہ کی ایف آئی آر میں، جو لاہور کے تھانہ نشتر کالونی میں درج کیا گیا ہے، یوٹیوبر رجب بٹ کے چند ویڈیو بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنے بیانات سے دفعہ 295 اے اور 295 سی کی توہین کی ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے کیا قوانین نافذ ہیں؟ ان کی کیا تاریخ ہے؟ اور دفعہ 295 اے اور 295 سی کے تحت جرم ثابت ہونے کی صورت میں مجرم کو کیا سزائیں دی جاسکتی ہیں، آئیے جانتے ہیں؛
برصغیر میں توہینِ مذہب کے قوانین
برصغیر میں توہینِ مذہب کے قوانین کا تاریخی پسِ منظر برطانوی راج کے دور سے جُڑا ہوا ہے، اگرچہ مذہبی تنازعات یہاں قدیم زمانے سے موجود رہے ہیں، لیکن توہینِ مذہب سے متعلق باقاعدہ قانونی دفعات برطانوی حکومت نے متعارف کرائیں۔
توہینِ مذہب کے قوانین پہلی مرتبہ برصغیر میں برطانوی راج کے زمانے میں 1860 میں بنائے گئے تھے اور پھر 1927 میں ان میں اضافہ کیا گیا تھا۔
انیسویں صدی میں برصغیر ایک متنوع مذہبی اور ثقافتی خطہ تھا، جہاں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بستے تھے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد برطانوی حکومت نے عوامی بغاوتوں کو روکنے کے لیے قوانین کو مزید سخت کیا اور مذہبی تنازعات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔
1860 کا تعزیراتِ ہند (Indian Penal Code - IPC):
برطانوی حکومت نے 1860 میں تعزیراتِ ہند (IPC) متعارف کرایا، جس میں مذہب سے متعلق جرائم کی کچھ شقیں شامل کی گئیں، جیسے:
دفعہ 295: کسی عبادت گاہ یا مقدس مقام کو نقصان پہنچانے پر سزا۔
دفعہ 296: کسی مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنے پر سزا۔
دفعہ 298: کسی بھی شخص کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی نیت سے کوئی بیان دینا یا عمل کرنا۔
یہ قوانین بنیادی طور پر مذہبی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے بنائے گئے تھے، لیکن اس وقت تک توہینِ مذہب کے حوالے سے سخت سزائیں متعین نہیں کی گئی تھیں۔
توہینِ مذہب کے قوانین میں سختی (1927-1929)
1920 کی دہائی میں برصغیر میں مذہبی کشیدگی میں اضافہ ہوا، خاص طور پر ہندو مسلم فسادات بڑھنے لگے۔
1927 میں لاہور میں راج پال نامی ایک ہندو پبلشر نے ایک کتاب شائع کی، جس میں نبی کریم ﷺ کے بارے میں توہین آمیز مواد موجود تھا۔ اس پر مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پھیلا، اور 1929 میں غازی علم دین نے راج پال کو جہنم واصل کر دیا۔
اس واقعے کے بعد برطانوی حکومت نے دفعہ 295-A کو متعارف کرایا، جس کے تحت:
-جان بوجھ کر اور بدنیتی سے کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے" پر سزا مقرر کی گئی۔
-اس جرم پر دو سال قید، جرمانہ، یا دونوں سزائیں دی جا سکتی تھیں۔
-یہ قانون خاص طور پر مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے مواد کی اشاعت اور تقاریر کے خلاف بنایا گیا تھا۔
1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد تعزیراتِ پاکستان (PPC) میں ان دفعات کو برقرار رکھا گیا، تاہم 1980 اور 1986 کے درمیان جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں توہینِ مذہب کے قوانین کو مزید سخت کیا گیا اور اس میں مزید شقوں کا اضافہ کردیا گیا کیونکہ جنرل ضیا ان قوانین کو اسلام سے مزید مطابقت دینا چاہتے تھے۔
تعزیراتِ پاکستان (PPC) میں دفعہ 295 اور اسکی ذیلی دفعات
تعزیرات پاکستان (پاکستان پینل کوڈ) میں دفعہ 295 اور اسکی ذیلی دفعات 295A، 295B اور 295C کا متن درج ذیل ہے:

دفعہ 295: کسی جماعت کے مذہب کی تذلیل کی نیت سے عبادت گاہ کو نقصان پہنچانا نجس کرنا
جوشخص کسی عبادت گاہ کویاکسی ایسی چیز کوجواشخاس کی کسی جماعت کی طرف سےمقدس سمجھی جاتی ہواس نیت سےتباہ کرے، نقصان پہنچائے یاناپاک کرے کہ اس طرح وہ اشخاص کی کسی جماعت کےمذہب کی تذلیل کرسکے یااس علم کےساتھ کہ اشخاص کی کسی جماعت کی مذکورہ تباہی نقصان یاناپاک کرنے سے ان کےمذہب کی تذلیل کااحتمال ہےتواسےکسی ایک جرم کی سزائے قید اتنی مدت کےلیے دی جائے گی جودوسال تک ہوسکتی ہےیا جرمانے کی سزا یادونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔
دفعہ 295 (اے)؛ مذہب یا مذہبی اعتقادات کی تذلیل/مذہبی جذبات کی بےحرمتی کرنا
جوکوئی شخص (پاکستان کے شہریوں کی) کسی جماعت کےمذہبی جذبات کی بے حرمتی کرنےکےارادی اورکینہ وارانہ مقصد سےالفاظ کےذریعہ خواہ زبانی ہوں یا تحریری یادکھائی دینے والے خاکوں کےذریعے مذکورہ جماعت کےمذہب یامذہبی اعتقادات کی تذلیل کرے یا تذلیل کرنے کی کوشش کرے تو اسے کسی ایک قسم کی سزا اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو 2 سال تک ہوسکتی ہے یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
دفعہ 295 (بی): قرآن پاک کےنسخے کی بےحرمتی وغیرہ کرنا
جوکوئی قرآن پاک کےنسخے یااس کےکسی اقتباس کی عمدا بےحرمتی کرے، اس کانقصان یابے ادبی کرے یا اسے توہین آمیز طریقے سےیاکسی غیرقانونی مقصد کےلیے استعمال کرے تووہ عمرقید کی سزا کامستوجب ہوگا۔
دفعہ 295 (سی): پیغمبر اسلام ﷺ کے بارےمیں توہین آمیزالفاظ وغیرہ استعمال کرنا
جوکوئی الفاظ کےذریعے خواہ زبانی ہوں یاتحریری یانقوش کےذریعے ،یاکسی تہمت ، کنایہ یادرپردہ تعریض کےذریعے بلاواسطہ یابالوالوسطہ رسول پاک حضرت محمدﷺکےپا ک نام کی توہین کرے گا تواسے موت یاعمر قید کی سزا دی جائے گی اوروہ جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہوگا۔
توہینِ مذہب کے قوانین متنازع کیوں؟
پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کا اطلاق بعض اوقات متنازع رہا ہے، ان قوانین کو بعض عناصر ذاتی دشمنی یا انتقامی کارروائی کے لیے بھی استعمال کرتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے کئی افراد کو ہجوم کے ہاتھوں تشدد یا ماورائے عدالت قتل کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے علاوہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں ان قوانین کی سختی اور ان کے ممکنہ غلط استعمال پر بھی سوالات اٹھاتی رہی ہیں۔
-
انفوٹینمنٹ 6 منٹ پہلے
ہانیہ سے مل کر کومل میر کس احساسِ کمتری کا شکار ہوئیں؟
-
انفوٹینمنٹ 29 منٹ پہلے
'عبیر گلال' کے میوزک لانچ ایونٹ میں فواد خان اور وانی کپور مرکزِ نگاہ
-
وائرل اسٹوریز 2 گھنٹے پہلے
کوہلی اور انوشکا کے دبئی میں رقص کی ویڈیو نے دھوم مچادی
-
انفوٹینمنٹ 2 گھنٹے پہلے
کومل میر نے وزن میں اضافے کی وجہ بتادی