پاکستان

مانسہرہ میں غیرت کے نام پر لرزہ خیز قتل، قصوروار کون؟

سینئر صحافی بلال غوری نے تازہ کالم میں واقعے کی المناک تفصیلات بیان کردیں

Web Desk

مانسہرہ میں غیرت کے نام پر لرزہ خیز قتل، قصوروار کون؟

سینئر صحافی بلال غوری نے تازہ کالم میں واقعے کی المناک تفصیلات بیان کردیں

(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے عید الفطر کے موقع پر صوبائی دارالحکومت لاہور کے متعدد تھیٹرز میں رات گئے اچانک چھاپے مارے، جہاں انہوں نے نامناسب لباس اور رقص کرنے پر اداکاروں و اداکاراؤں کو نوٹسز بھی جاری کیے۔

تھیٹرز میں اداکاراؤں کی جانب سے کی جانے والی نامناسب ڈریسنگ پر عظمیٰ بخاری نے اظہار برہمی کیا، وہ گانوں میں نامناسب رقص پر بھی نالاں ہوئیں۔

اسی دوران ایک اور خبر موضوع بحث بنی جب قصور میں پولیس نے فارم ہاؤس پر چھاپہ مار کر وہاں پارٹی کیلئے جمع ہونے والے لڑکے لڑکیوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کردیں۔

ایک جانب پولیس ان چھاپوں میں مصروف ہے تو دوسری جانب مانسہرہ میں غیرت کے نام پر خاتون اور اسکی 16 ماہ کی بچی کے قتل نے دل دہلا دیا، سینئر صحافی و کالم نگار محمد بلال غوری نے اپنے تازہ کالم میں اِن تینوں واقعات کے تناظر میں حکام کی ترجیحات پر کڑی تنقید کی ہے۔

اپنے کالم میں محمد بلال غوری لکھتے ہیں کہ 'لاہور میں تھیٹرز پر چھاپے، قصور پولیس کا گھر میں ہونے والی تقریب پر ریڈ اور مانسہرہ میں غیرت کے نام پر لڑکی اور اس کی شیر خوار بچی کا قتل، ان تینوں واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اخلاقیات کے پیمانے بدل رہے ہیں، سماج میں ابوجہل کے پیروکاروں کی تعداد نہایت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ برس پاکستان میں غیرت کے نام پر 400 خواتین قتل ہوئیں۔ یعنی ہر روز وطن عزیز کے کسی کونے میں کوئی بیٹی ’’غیرت‘‘ کی آگ کا ایندھن بنا دی جاتی ہے'۔

محمد بلال غوری کے بقول 'یوں تو قتل ناحق کی ہر روداد قلب و روح کو بے قرار کرتی ہے مگر چند روز قبل مانسہرہ میں ہونے والی لرزہ خیز واردات نے دل کی حشر سامانیوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں جب غیرت کے نام پر بےغیرتی کا خونیں کھیل رچایا جاتا ہے تو ایک اصطلاح سننے کو ملتی ہے ’’پسند کی شادی‘‘۔ گویا شادی پسند کے برعکس بھی ہوتی ہے؟ حالانکہ جنسی زیادتی اور شادی کے بعد مباشرت کے درمیان فرق کا اظہار پسند سے ہی ہوتا ہے، اگر مرضی شامل نہیں تو جبر واِکراہ کے ذریعے ایجاب و قبول کے باوجود استوار ہونے والا تعلق جبری جنسی زیادتی ہی شمار ہو گا۔

مانسہرہ میں پیش آنے والے المناک واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے محمد بلال غوری لکھتے ہیں کہ 'مانسہرہ کے علاقے جابہ کے رہائشی نوجوان عمر نے رابعہ کا رشتہ لینے کیلئے ہزار جتن کیے مگر اس کے اہلخانہ نہیں مانے۔ لڑکی کے والدین اسے اپنی مرضی کے کھونٹے سے باندھنا چاہتے تھے۔ جب جبری شادی سے بچنے کی کوئی صورت باقی نہ رہی تو رابعہ نے2022ء میں عدالت سے رجوع کرکے جج کے روبرو، شرعی و قانونی طریقے سے نکاح کرلیا اور چونکہ اب غیرت کا آتش فشاں پھوٹ پڑنے کا امکان تھا اس لیے نوبیاہتا جوڑے نے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر کراچی کا رُخ کر لیا۔ اس دوران مسلسل والدین کو منانے کی کوشش کی جاتی رہی اور اس استدلال کی بنیاد پر معافی تلافی کا کہا جاتا رہا کہ جو ہونا تھا، ہو چکا، اب اس رشتے کو قبول کر لیں مگر ہر بار رحم کی اپیل مسترد کی جاتی رہی۔ ان دونوں کے آنگن میں ایک ننھی کلی کھلی تو زندگی میں جیسے بہار آگئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کی تلخیاں محبت پر غالب آنے لگیں اور معاش کی فکر دامن گیر ہوئی تو عمر اپنی دو ماہ کی بچی اور شریک حیات کو اکیلا چھوڑ کر سعودی عرب چلا گیا۔ شاید اس کی والدہ نسرین اپنی بہو اور پوتی کے پاس رہائش پذیر تھی۔ نوجوان نسل کی نسبت بزرگوں کو اپنے علاقے اور لوگوں کی یاد زیادہ ستاتی ہے۔ نسرین بی بی کا بھی دل چاہتا تھا کہ شہر ی چکا چوند سے دور اپنے آبائی علاقے کو لوٹ جائے۔ اس نے سوچا، رابعہ کے خاندان کی دشمنی تو میرے بیٹے سے ہے، وہ تو یہاں ہے نہیں، کیوں نہ اب بچوں کو ساتھ لیکر مانسہرہ واپس چلی جائوں۔ چنانچہ عیدالفطر سے کچھ دن پہلے وہ اپنی بہو اور پوتی کو ساتھ لیکر واپس جابہ آ گئی۔ اس کا خیال تھا کہ رابعہ ہو یا اس کی معصوم بیٹی جو اب 16 ماہ کی ہو چکی ہے، اسے کوئی کیوں نقصان پہنچائے گا، یہ تو ان کا اپنا خون ہے۔ مگر اسے ابوجہل کے پیروکاروں کی سنگدلی کا اندازہ نہیں تھا۔4 اپریل 2025ء کو جمعہ کا دن تھا۔ عمر جو بلاناغہ اپنی اہلیہ اور بیٹی سے ویڈیو کال پر بات کیا کرتا تھا، اس نے رابطہ کیا تو رابعہ نے کہا کہ نماز پڑھ کر بات کرتی ہوں۔ تقریباً ایک بجے جب رابعہ قرآن پاک پڑھ رہی تھی تواس کے چچا 3 دیگر افراد کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے، نسرین بی بی پر بندوق تان کر اسے ایک طرف کر دیا اور رابعہ شاہ کے کمرے میں داخل ہو گئے۔ پہلے تو اس نے چچا سے اپنی زندگی کی بھیک مانگی مگر جب کسی نے ترس نہ کھایا تو اس نے کہا کہ میری بیٹی عائزہ نور کو کچھ نہ کہیں، اس معصوم کا کیا قصور ہے مگر انہوں نے ایک نہ سُںی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جب نسرین اپنی بہو اور پوتی کی لاشوں کو سپرد خاک کرنے کیلئے لے جارہی تھی تو قاتلوں نے لاشیں چھین لیں اور کہا کہ یہ ہماری بیٹی ہے، ہم خود اسے دفن کریں گے'۔

المناک واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے محمد بلال غوری لکھتے ہیں کہ 'میں عموماً مذہبی روایات کو بطور استدلال بیان کرنے سے گریز کرتا ہوں کہ فرقہ بندی کے باعث ہر بات متنازع ہو جاتی ہے۔ لیکن آج ایک واقعہ ضرور بیان کروں گا۔ آنحضورﷺ کی آمد سے پہلے کا جاہل، اجڈ اور گنوار عرب معاشرہ جہاں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا دستور رائج تھا، وہاں جب حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب کی شادی ہو رہی تھی تو ایک لڑکی نے ان کے گھوڑے کی باگ تھام لی اور کہا کہ اب بھی وقت ہے، اپنی بارات کا رُخ میرے گھر کی طرف موڑ دو۔ مکہ کے کئی سرداروں کی صاحبزادیاں حضرت عمرؓ سے پسند کی شادی کرنا چاہتی تھیں اور برملا اپنی اس خواہش کا اظہار کر رہی تھیں، اس دور میں کسی نے غیرت کے نام پر اپنی بیٹیوں کو قتل نہیں کیا تو عصر حاضر کے ابوجہل کہاں سے یہ غیرت مستعار کے آئے ہیں؟'

کالم کے اختتام میں محمد بلال غوری لکھتے ہیں کہ 'غیرت کا یہ تصور اجتماعی رویوں سے جنم لیتا ہے۔ پنجاب میں تھیٹرز پر چھاپے پڑ رہے ہیں، گانوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور پولیس قانون نافذ کرنے کے بجائے اپنی سوچ کے مطابق اخلاقیات کا نفاذ کرتی پھرتی ہے۔ قصور میں ایک گھر کے اندر ہونے والی تقریب پر چھاپہ مار کارروائی سے یاد آیا۔ حضرت عمرؓ حسب معمول گشت پر تھے کہ ایک گھر سے گانا بجانے کی آواز آئی۔ دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے تو ایک نوجوان کو دوشیزہ کے ہمراہ پایا۔ اس سے پہلے کہ گناہ گاروں کو سزا سنائی جاتی۔ نوجوان نے کرخت لہجے میں کہا، امیر المومنین! اگر مجھ سے ایک غلطی سرزد ہوئی ہے تو آپ تین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پہلی خطا یہ کہ آپ میری خلوت میں مخل ہوئے، دوسری غلطی یہ کہ دروازے کے بجائے دیوار سے کود کر اندر آئے اور تیسری یہ کہ بغیر اجازت اندر داخل ہوئے۔ حضرت عمرؓ، جو اپنی سخت گیری کے حوالے سے مشہور ہیں، شرمندہ ہوئے اور اپنی غلطی تسلیم کی۔ مگر یہاں ان پولیس اہلکاروں کو ہیرو بنایا جا رہا ہے جنہوں نے چھاپہ مارا۔ یہ کون سا دین ہے؟ کیسی شریعت ہے؟ کس قسم کی غیرت ہے؟'

تازہ ترین