پاکستان

کالاباغ ڈیم پر آصف زرداری کو کیسی ڈیل آفر ہوئی تھی؟

نہروں کے اشو پر پی پی حکومت کا ساتھ چھوڑنے کو تیار؟

Web Desk

کالاباغ ڈیم پر آصف زرداری کو کیسی ڈیل آفر ہوئی تھی؟

نہروں کے اشو پر پی پی حکومت کا ساتھ چھوڑنے کو تیار؟

کالاباغ ڈیم پر آصف زرداری کو کیسی ڈیل آفر ہوئی تھی؟

سینئر صحافی حامد میر نے دریائے سندھ سے چھ نہریں نکالنے کے متنازع منصوبے پر پاکستان پیپلزپارٹی کے ممکنہ ردعمل سے متعلق اہم سوال اٹھا دیا۔

 نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں سینئر صحافی حامد میر سے دریائے ‏سندھ سے چھ نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف پاکستان پیپلزپارٹی ‏کے موقف سے متعلق سوال پوچھا گیا کہ اگر پیپلزپارٹی اپنی پوزیشن پر ‏قائم رہتی ہے تو پھر کسی نہ کسی کو تو پیچھے ہٹنا پڑے گا، پیپلزپارٹی ‏پیچھے نہ ہٹی تو حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑے گا، کیونکہ پیپلزپارٹی بار ‏بار یہ کہتی نظر آتی ہے کہ بے نظیر بھٹو کی سخت مخالفت کی وجہ سے ‏کالاباغ ڈیم نہیں بن سکا تھا، کیا آپ کو اب بھی ویسے معاملات ہوتے ‏ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں حامد میر نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ‏کہ میں آپ کو ایک تاریخی حقیقت بتانے جا رہا ہوں جس کا میں خود ‏عینی شاہد ہوں کہ ‏‎2004‎‏ میں آصف علی زرداری جب اڈیالہ جیل ‏راولپنڈی میں قید تھے تو ان کے ساتھ باقاعدہ طور پر اسی طریقے سے ‏ڈیل کی گئی تھی جس طرح آج کل عمران خان کے ساتھ ان کی اپنی پارٹی ‏کے کچھ لوگ جیل میں ملتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کوئی ڈیل ‏ہوجائے۔

حامد میر نے دعویٰ کیا کہ اسی طرح جب زرداری صاحب کے ساتھ بھی ‏ان کی اپنی ہی پارٹی کے لوگوں نے ڈیل کرنے کی کوشش کی اور پھر ‏اس وقت کے آئی ایس آئی کے ڈی جی سی‎ ‎‏ اہتشام جمیل‎ ‎‏ بھی اس میں ‏شامل ہوگئے اور پھر آصف زرداری کو یہ ایک ڈیل دی گئی کہ اگر ‏پیپلزپارٹی کالاباغ ڈیم کی حمایت کرے تو انہیں ناصرف رہا کردیا جائے گا ‏بلکہ حکومت میں بھی لے آئیں گے۔

سینئر صحافی نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس وقت آصف علی ‏زرداری نے پارٹی کے ساتھیوں کے ذریعے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ‏صلاح مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ ہم یہ رسک نہیں لے سکتے، کیونکہ ‏تین صوبوں کی اسمبلیاں کالاباغ ڈیم کے خلاف قرارداد منظور کر چکی ‏ہیں تو ہم یہ کام یعنی حمایت نہیں کرسکتے۔

حامد میر کے مطابق پھر جب عدالت کے ذریعے آصف علی زرداری رہا ‏ہوگئے تو ان کو پھر دوبارہ دوسرے کیسز میں گرفتار کرنے کی کوشش ‏کی گئی جس کے بعد پھر وہ پاکستان سے باہر چلے گئے تھے۔ ‏

سینئر صحافی نے چھ نئی نہروں کے معاملے کے پیش نظر اپنا ماہرانہ ‏تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کالاباغ ڈیم کے اشو پر اسٹیبلشمنٹ نے ‏پیپلزپارٹی کے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پیپلزپارٹی نے ‏انکار کردیا، حامد میر کے بقول چھ نئی نہروں کا اشو بھی کالاباغ ڈیم کی ‏طرح پیپلزپارٹی کے لیے بقا کا مسئلہ ہے، پیپلزپارٹی کے پاس صرف ‏صدر، چیئرمین سینیٹ کا آئینی عہدہ ہے اور دو گورنرز کے عہدے ہیں، ‏یہ تین چار عہدے اپنے پاس رکھنے کیلئے پیپلزپارٹی سندھ میں اپنی ‏پوری سیاست کو قربان نہیں کر سکتی، یہ پیپلزپارٹی میں طے ہو چکا ‏ہے۔

حامد میر کے مطابق یہ فیصلہ بلاول بھٹو نے کیا ہے کہ اگر ہمیں نہروں ‏کے اشو پر حکومت کی حمایت سے ہاتھ ہٹانا پڑا تو ہم ہاتھ ہٹا دیں گے۔ ‏اس کو خوش فہمی سمجھیں یا غلط فہمی لیکن پیپلزپارٹی کا ابھی تک یہ ‏خیال ہے کہ شہباز شریف اتنا بڑا رسک نہیں لیں گے، کونسل آف کامن ‏انٹریسٹ کا اجلاس بلائیں گے، وہاں پر فیصلہ ہوگا اور یہ نئی نہروں کا ‏منصوبہ واپس ہوجائیگا۔

صدر آصف علی زرداری پر نہری منصوبے کی منظوری کے الزام سے ‏متعلق سوال پر حامد میر نے بتایا کہ جب عرفان صدیقی نے بیان دیا کہ ‏صدر نے اس منصوبے کی منظوری دی تھی اس پر پیپلزپارٹی نے مسلم ‏لیگ ن کے قائدین سے رابطہ کرکے ایسے نہیں چلے گا، ہم آپ سے ‏پوچھیں گے کہ یہ جعلی میٹنگ منٹس کس نے اور کس کی ہدایت پر ‏بنائے ہیں؟ حامد میر کے بقول پیپلزپارٹی ان میٹنگ منٹس کو زور دیکر ‏جعلی قرار دے رہے ہیں کیونکہ کچھ لوگ صدر زرداری کو بریفنگ ‏دینے ایوانِ صدر آئے اور انہوں نے کہا یہ کچھ ایریگیشن کے پراجیکٹ ‏ہیں اور پھر انہوں نے بریفنگ سن لی، اس کے بعد منٹس بنا کر کہا گیا ‏کہ یہ میٹنگ منٹس تھے صدر صاحب نے تو منظوری دے دی ہے تو اب ‏پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن سے پوچھ رہی ہے کہ آئین کے کس آرٹیکل کے ‏تحت صدر نہروں کے منصوبے منظوری دیتا ہے؟ عرفان صدیقی جیسے ‏ذمہ دار لوگ کس کے کہنے پر غیر ذمہ دارانہ باتیں کر رہے ہیں ؟ آپ ‏کس کو خوش کر رہے ہیں، اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم وفاقی حکومت ‏کا ساتھ چھوڑ دیں تو ہم تیار ہیں۔

تازہ ترین