مشہور اداکار نے وقف ایکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
اداکار ان متعدد افراد میں شامل ہوگئے جنہوں نے اس قانون پر عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا۔

ساؤتھ انڈین اداکار اور سیاسی جماعت تملگا ویٹری کزگم (TVK) کے صدر تھلاپتی وجے نے سپریم کورٹ میں وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو چیلنج کردیا۔
اداکار ان بہت سے دیگر افراد میں شامل ہوگئے ہیں جنہوں نے جو عدالت عظمیٰ میں وقف ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرتے ہوئے درخواستیں دائر کی ہیں۔
ان درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ قانون مسلم کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
وقف ایکٹ کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے والوں میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی، کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید اور عمران پرتاپ گڑھی، آپ ایم ایل اے امانت اللہ خان، اور آزاد سماج پارٹی کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ چندر شیکھر آزاد شامل ہیں۔
اس کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے بھی اس ایکٹ کو چیلنج کیا ہے، اور کہا ہے کہ اس نے پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کردہ ترامیم پر 'من مانی، امتیازی اور اخراج پر مبنی' ہونے کی وجہ سے سخت اعتراض کیا ہے۔
تامل ناڈو کی حکمران جماعت ڈی ایم کے بھی قانونی چیلنج میں شامل ہو گئی ہے، جس کے رکن پارلیمنٹ اے راجہ، جو وقف بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے رکن تھے، نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
وقف ایکٹ کی حمایت میں بھی سپریم کورٹ میں مداخلت کی درخواستیں داخل کی گئی ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ترامیم ہندوستانی آئین کی اسکیم کے مطابق ہیں اور مسلم کمیونٹی کے کسی بھی رکن کے حق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے۔
بھارت کی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک کیویٹ بھی داخل کیا ہے، جس میں نئے نافذ کردہ وقف ایکٹ کی آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر کوئی حکم منظور کرنے سے پہلے سماعت کی درخواست کی گئی ہے۔
کسی فریق کی طرف سے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں کیویٹ اس لیے دائر کیا جاتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی حکم سنے بغیر نہ دیا جائے۔
وقف ایکٹ کیا ہے؟
بھارت میں عبات گاہوں، خانقاہوں اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے اراضی اور املاک وقف کرنے کی روایت مسلمان حکمرانوں کے دور سے چلی آ رہی ہے۔
بادشاہوں کے دور میں نہ صرف حکمراں بلکہ صاحب حیثیت اور مخیر لوگ مسجدوں، خانقاہوں، امام بارگاہوں اور دیگر امور کے مصارف اور دیکھ بھال کے لیے اپنی جائیدادوں کا کچھ حصہ وقف کیا کرتے تھے، نوابوں کے عہد میں یہ سلسلہ اور بھی بڑھ گیا تھا۔
مسلمان اپنی جائیدیدیں اور املاک خدا کی راہ میں وقف کرنے کو ایک انتہائی نیک اور ثواب کا عمل سمجھتے تھے، بیشتر قبرستان کی زمینیں، درگاہیں، خانقاہیں ، امام بارگاہیں، مساجد اور مدرسے مسلمانوں کی وقف کی گئی زمینوں پر تعمیر کیے گئے ہیں۔
مسلمان صرف مکان ہی نہیں اپنی زرعی زمینیں اور باغات وغیرہ بھی وقف کیا کرتے تھے۔ آزادی کے بعد بھی انڈیا میں یہ سلسہ جاری رہا۔
اس قسم کی وقف کردہ جائیدادوں کی دیکھ بھال کے لیے وقف قانون بنایا گیا تھا جس کے تحت مختلف ریاستوں میں وقف بورڈ تشکیل دیے گئے تھے، ان میں حکومت کے نامزد ارکان کے علاوہ سرکردہ مسلم شحصیات، دانشور، مذہبی رہنما اور علما وغیرہ کو شامل کیا جاتا تھا، بورڈ کے کم وبیش سبھی ارکان مسلم ہی ہوتے تھے۔
وقف ایکٹ میں دو طرح کی جائیداد کا ذکر ہے۔ پہلا وقف اللہ کے نام پر ہے، یعنی ایسی جائیداد جو اللہ کے لیے وقف کی گئی ہو اور جس پر میراث کا کوئی حق باقی نہ ہو۔
وقف کی دوسری قسم میں ایسی وقف جائیداد ہے جس کی دیکھ بھال ورثا کریں گے۔
وقف کوئی بھی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد ہے جو کسی بھی شخص کی طرف سے اللہ کے نام پر یا مذہبی یا خیراتی مقاصد کے لیے عطیہ کی جاتی ہے۔
یہ جائیداد فلاح و بہبود کے لیے معاشرے کی ملکیت بن جاتی ہے اور اللہ کے سوا کوئی اس کا مالک نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔
وقف متنازع قانون کیا کہتا ہے؟
نئے قانون کے تحت وقف بورڈز کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنی املاک کو ضلع کلکٹر کے پاس رجسٹر کرائیں گے تاکہ ان کی اصل قیمت اور حیثیت کا تعین کیا جا سکے۔
- نئے قانون کے مطابق صرف وہی شخص زمین عطیہ کر سکتا ہے جو مسلسل پانچ سال تک مسلمان رہا ہو اور عطیہ کی جانے والی جائیداد اس کی اپنی ملکیت ہو۔
نئے بل میں سروے کرانے کا حق وقف کمشنر کے بجائے کلکٹر کو دیا گیا ہے، اس کے وقف میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہو کہ وقف علی الاولاد کی صورت میں وراثت میں خواتین کی حق تلفی نہ کی گئی ہو۔
- اس قانون میں وقف بورڈ کے اختیارات سے متعلق سیکشن 40 کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے تحت بورڈ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا کوئی جائیداد وقف جائیداد ہے یا نہیں۔
یوں حکومت کے قبضے میں وقف املاک سے متعلق تنازع میں کلکٹر کا فیصلہ موثر مانا جائے گا۔ اس بل کے مطابق وقف ٹریبونل کے فیصلے کو حتمی نہیں سمجھا جائے گا۔
- اس بل میں متولیوں کی سرگرمیوں پر بہتر کنٹرول کے لیے انہیں وقف کے اکاؤنٹس بورڈ کو ایک مرکزی پورٹل کے ذریعے جوڑنے کی سہولت فراہم کرنے، دو ممبران پر مشتمل ڈھانچے کے ساتھ ٹریبونل میں اصلاحات کرنے اور ٹربیونل کے احکامات کے خلاف 90 دنوں کی مخصوص مدت کے اندر ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
- اس قانون کے مطابق مختلف ریاستی بورڈز کی جانب سے دعوی کردہ متنازع زمینوں کی نئے سرے سے تصدیق بھی کی جائے گی۔
- اس قانون میں بوہرہ اور آغاخانی مسلمانوں کے لیے الگ سے وقف بورڈ کے قیام کا بھی التزام کیا گیا ہے۔
- ترمیمی قانون میں وقف بورڈ کی تشکیل میں تبدیلی کرتے ہوئے ان میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کی بات کہی گئی ہے۔
مسلم رہنماؤں کا سوال ہے کہ مرکزی حکومت آزادی کے بعد 1951 میں بنے مدراس ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف ایکٹ کو چھوڑ کر صرف مسلم وقف بورڈ میں ہی ترمیم کیوں کرنا چاہتی ہے۔
وقف کے پاس کتنی اراضی ہے؟
بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، وقف بورڈکے پاس تقریباً 9.4 لاکھ ایکڑ اراضی ہے۔
اگر اس کا موازنہ وزارت دفاع اور ریلوے سے کیا جائے تو وقف بورڈ ہندوستان میں تیسرا سب سے بڑا لینڈ بینک رکھتا ہے۔
-
انفوٹینمنٹ 15 منٹ پہلے
ہانیہ سے مل کر کومل میر کس احساسِ کمتری کا شکار ہوئیں؟
-
انفوٹینمنٹ 39 منٹ پہلے
'عبیر گلال' کے میوزک لانچ ایونٹ میں فواد خان اور وانی کپور مرکزِ نگاہ
-
وائرل اسٹوریز 2 گھنٹے پہلے
کوہلی اور انوشکا کے دبئی میں رقص کی ویڈیو نے دھوم مچادی
-
انفوٹینمنٹ 2 گھنٹے پہلے
کومل میر نے وزن میں اضافے کی وجہ بتادی