دلچسپ و خاص

ہفتے میں 4 دن کام اور 3 دن آرام کی سہولت دینے والے ممالک

یہ حکمت عملی نہ صرف کام کے دباؤ کو کم کرتی ہے بلکہ دماغی صحت کو بھی بہتر بناتی ہے

Web Desk

ہفتے میں 4 دن کام اور 3 دن آرام کی سہولت دینے والے ممالک

یہ حکمت عملی نہ صرف کام کے دباؤ کو کم کرتی ہے بلکہ دماغی صحت کو بھی بہتر بناتی ہے

(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

دنیا بھر میں جہاں ملازمت پیشہ افراد چھٹی کا دن دیر سے آنے اور جلد گزر جانے کا شکوہ کرتے نظر آتے وہیں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں طویل ویک اینڈ کا خواب اب حقیقت بنتا جا رہا ہے۔

کورونا وبا کے بعد سے دنیا کے مختلف ممالک میں ورک کلچر کے بدلتے انداز نے 4 دن پر مشتمل 'ورک ویک' کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے، زیادہ سے زیادہ ممالک، کمپنیوں اور ملازمین نے اس پر ازسرنو غور کرنا شروع کردیا ہے کہ پیداواری صلاحیت بڑھانے اور ورک لائف بیلنس برقرار رکھنے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔

اسی تناظر میں کئی ممالک میں اس نئے نظام کو '100-80-100 ماڈل' کے تحت نافذ کیا گیا ہے، یعنی ملازمین کو 100 فیصد تنخواہ دی جاتی ہے، وہ صرف 80 فیصد وقت کام کرتے ہیں اور اس کے باوجود 100 فیصد کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

دنیا کے چند خوشحال ترین ممالک، مثلاً آئس لینڈ، ڈنمارک اور ہالینڈ بھی اس تجربے کی کامیاب آزمائش کر رہے ہیں، یہ حکمت عملی نہ صرف کام کے دباؤ کو کم کرتی ہے بلکہ دماغی صحت کو بھی بہتر بناتی ہے، ملازمین کے اپنی نوکری پر اطمینان میں اضافہ کرتی ہے اور انکی کارکردگی بھی بڑھاتی ہے۔

آئیے اُن ممالک کے بارے میں جانتے ہیں جو اپنے شہروں کو ہفتے میں 4 دن کام اور 3 دن آرام کی سہولت دیتے ہیں؛

جاپان

(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

جاپان نے اپریل 2025 سے سرکاری ملازمین کے لیے چار دن پر مشتمل 'ورک ویک' متعارف کرایا ہے، اس کا مقصد بہتر ورک لائف بیلنس کے ساتھ ساتھ ملک کی کم ہوتی شرحِ پیدائش کا حل تلاش کرنا بھی ہے۔

علاوہ ازیں ملازمت پیشہ والدین کیلئے ایک نئی 'چائلڈ کیئر پارشل لیو پالیسی' بھی متعارف کروائی گئی ہے جو انہیں اپنے کام کے اوقات کو 2 گھنٹے کم کرنے کی اجازت دیتی ہے، جس سے اُن کیلئے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کا انتظام کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

بیلجیئم

(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

بیلجیئم2022 میں یورپ کا پہلا ملک بنا جس نے چار دن پر مشتمل 'ورک ویک' کو قانون کا حصہ بنایا۔

اس قانون کے تحت ملازمین اپنی 40 گھنٹے کی ہفتہ وار ڈیوٹی کو تنخواہ میں کٹوتی کے بغیر 4 دن میں مکمل کر سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں بیلجیئم میں 'رائٹ ٹو ڈسکنیکٹ' کا قانون بھی نافذ کیا گیا جس کے تحت ملازمین آفس کے اوقاتِ کار کے بعد کام سے متعلق آفس سے موصول کالز اور پیغامات کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔

یہ قانونی فریم ورک اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ملازمین کو آرام کرنے اور ذہنی طور پر 'ری چارج' ہونے کے لیے صحیح معنوں میں وقت ملے، کام کا دباؤ کم ہو اور ذہنی صحت کو تحفظ ملے۔

جرمنی

(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

سال 24-2023 میں جرمنی کے 41 اداروں میں 4 دن پر مشتمل 'ورک ویک' کا تجربہ کیا گیا، جس میں سے 73 فیصد اداروں نے اس ماڈل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

جرمنی اب دنیا کے سب سے مختصر ورک ویک (34 گھنٹے) والا ملک بن چکا ہے، اس تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ کم وقت میں بھی بہتر کارکردگی ممکن ہے۔

ملک میں مختصر ورک ویک کا یہ کامیاب تجربہ ثابت کرتا ہے کہ ملازمت کے کم اوقات کار کا مطلب کم کام نہیں ہے، بلکہ یہ اسمارٹ ورکنگ کی جانب ایسی کوشش ہے جو ملازمین کو مطمئن اور زیادہ کارآمد بنادیتی ہے۔

آئس لینڈ

(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

آئس لینڈ نے سال 2015 سے 2019 کے دوران 40 گھنٹوں کی بجائے 35-36 گھنٹے پر مشتمل ورک ویک پالیسی متعارف کروائی، نتیجتاً سرکاری ملازمین تنخواہ میں کٹوتی کے بغیر ہفتے میں 35-36 گھنٹے کام کرنے لگے۔

2022 تک آدھے سے زیادہ ملازمین قلیل وقت میں کام کرنے لگے، اور نتیجہ یہ نکلا کہ پیداواری صلاحیت میں کمی کی بجائے خوشی، ذہنی صحت اور اقتصادی ترقی میں اضافہ ہوا۔

ڈنمارک

(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

اگرچہ ڈنمارک نے باضابطہ طور پر 4 دن پر محیط 'ورک ویک پالیسی' نہیں اپنائی، مگر یہاں اوسط ہفتہ وار اوقات 37 گھنٹے ہی ہیں۔

سکون اور توازن پر مبنی طرزِ زندگی یہاں کے ورک کلچر میں نمایاں ہے، علاوہ ازیں یہاں کے ملازمین کو مکمل تنخواہ کے ساتھ 5 ہفتوں پر محیط سالانہ چھٹیاں (annual leaves) بھی دی جاتی ہیں۔

تازہ ترین