پاکستان

رہنما PTI حسان نیازی اِس وقت کہاں ہیں؟

حفیظ اللہ نیازی کے تازہ کالم میں اہم انکشافات

Web Desk

رہنما PTI حسان نیازی اِس وقت کہاں ہیں؟

حفیظ اللہ نیازی کے تازہ کالم میں اہم انکشافات

(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
(فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

سابق وزیراعظم و بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے بھانجے اور قانونی مشیر حسان خان نیازی کو 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد ایبٹ آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔

ان پر جناح ہاؤس لاہور پر حملے میں ملوث ہونے کا الزام تھا، بعد ازاں انہیں فوجی حکام کے حوالے کیا گیا تاکہ ان پر پاکستان آرمی ایکٹ 1952 اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت مقدمہ چلایا جا سکے۔

فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد دسمبر 2024 میں حسان نیازی کو 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔

یہ گرفتاری اور سزا 9 مئی کے احتجاجی مظاہروں کے تناظر میں ہوئی، جب عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے، جن میں فوجی اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

حسان نیازی اس وقت کہاں اور کس حال میں ہیں؟ اُن کے والد، سینئر صحافی و تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے اپنے تازہ کالم میں اپنے بیٹے کی روداد تفصیل سے بیان کی ہے۔

حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ 'گزشتہ روزسپریم کورٹ آئینی بینچ کے سامنے عزت مآب خواجہ حارث نے جواب الجواب میں دلائل دیتے ہوئے کہا ’’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے اور فوجی عدالتوں میں فیئر ٹرائل میسر ہے‘‘ لیکن بطور باپ میرا ذاتی تجربہ اسکے برعکس ہے'۔

حفیظ اللہ نیازی لکھتے ہیں کہ 'پچھلے ڈیڑھ سال سے سانحہ 9 مئی پر سویلین کے ملٹری ٹرائل کا کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے، اس میں یقیناً کوئی دو رائے نہیں کہ جس کسی نے جو بھی جرم کیا ہے اس کو آئین و قانون کےمطابق قرار واقعی سزا ملنی چاہیے، آئین اور قانون نے سزا و جزا کی حدود و قیود مقرر کر رکھی ہیں، لیکن میرا ذاتی تجربہ ہے کہ فوجی عدالتوں کی سزائیں غیر منصفانہ ہیں، میرے بیٹےحسان خان کی 10سال قید بامشقت سے مجھے کوئی تکلیف ہے نہ پریشانی، سب کچھ من جانب اللہ، البتہ ریاست کا آئین و قانون کے مطابق ہونا تو منظور ہوتا، اب ایسا نہیں ہوا'۔

کالم نگار کے بقول '26ویں آئینی ترمیم جو توقعات باندھ کر منظور کروائی گئی، اسکے بعد عدالتیں، مقتدرہ کی مرضی کے خلاف فیصلہ کیسے کر سکیں گی، سانحہ 9مئی پر ہزاروں FIR ایک طرز پر درج ہیں، ہزاروں ملزمان میں سے فقط 105 ملزمان کا انتخاب کس بنیاد پر ہوا؟ افسوس! یہ زیر بحث نہیں لایا گیا، میری خوش قسمتی ہے کہ شروع سے آج تک آئینی بینچ کی کارروائی لفظ بہ لفظ سُنی اور حصہ بقدر جثہ بھی ڈالا'۔

اپنے بیٹے حسان نیازی کو درپیش صورتحال کا چشم کشا احوال بیان کرتے ہوئے حفیظ اللہ نیازی لکھتے ہیں کہ 'بطور متاثرہ فریق، بیرسٹر حسان نیازی کے 13 اگست 2023ء کو اُٹھائے جانے سے لیکر 10سال قید بامشقت کی حرف بہ حرف کہانی، میری کتاب زندگی کا مزاحیہ باب ہے، بیرسٹر حسان اور اسکے دوست حیدر مجید کو ایبٹ آباد سے گرفتار کیا گیا اور 2 ماہ تک لاپتہ رکھا، گرفتاری کے فوراً بعد لاہور، پشاور، کوئٹہ، کراچی ہائیکورٹس میں حبس بیجا اپیل دائر کی، چند دنوں میں لاہور ہائیکورٹ کے اصرار پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے 17اگست 2023 عرفان اطہر کمانڈنگ آفیسر EME برانچ لاہور کیطرف سے SHO تھانہ سرور روڈ کے نام ایک خط دکھایا جو عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے، خط میں SHO کو حسان نیازی کو DELIVER کرنے کا کہا گیا'۔

حفیظ اللہ نیازی کے بقول 'یہ خط اپنے طور غیرقانونی بلکہ ملکی قوانین کا DISREGARD ہے۔ شروع ہی جھوٹ سے کی، جب ایبٹ آباد سے پکڑا تو پورے میڈیا پراسی دن نشر ہوا، تھانہ سرور روڈ کے SHO سے کس مد میں تحویل مانگی گئی تھی؟'

حفیظ اللہ نیازی لکھتے ہیں کہ 'سپریم کورٹ میں جاری و ساری سویلین کے ملٹری ٹرائل کیس کے دوران جب عدالت نے یہ ریمارکس دیے کہ ’’سویلین کی فوج کو حوالگی انسدادِ دہشتگردی عدالت کے ذریعے ہوئی‘‘ تو مجھے بینچ کی ایسی لاعلمی پر ذہنی کوفت پہنچی'۔

اپنے کالم میں حفیظ اللہ نیازی نے بتایا کہ 'میرے بیٹے بیرسٹر حسان اور حیدر مجید اور 105 ملزمان میں سے نجانے اور کتنے ایسے لوگ ہیں جن کو کسی عدالت میں پیش کرنے کی زحمت نہیں کی گئی۔ تقریباً 2سال ہونے کو ہیں، سپریم کورٹ نے اپنے طور پر ایسے 9 مئی کے قومی سانحہ کی تحقیق کی نہ تفتیش جبکہ آئینی بینچ کے سامنے ریاستی وکلا نے ملٹری ٹرائل کی افادیت اور اوصاف حمیدہ بارے دلائل کے ڈھیر لگا دیئے، حالانکہ عدالت آج تک سویلین کے ملٹری ٹرائل کا آئین کے اندر خاطر خواہ جواز تلاش کرنے سے قاصر ہے'۔

حفیظ اللہ نیازی نے خدشہ ظاہر کیا کہ 'نظریہ ضرورت پھر انگڑائی لینے کو ہے، عدالت کو راستہ مل جائیگا، اٹارنی جنرل نے آئینی بینچ کو تاثر دیا کہ سزائیں 2/3سال سے زیادہ نہیں ہونگی ۔حالانکہ بعض کیسز میں 10، 10سال کی سزا سنائی گئیں، ملٹری کورٹس کی دلچسپ صورتحال شکایت کنندہ (مدعی)، پراسیکیوٹر، گواہ، جیوری، جج، سبھی ایک ہی تو تھے، انصاف کیونکر ممکن رہے گا؟ آئینی بینچ کم از کم 105 ٹرائلز کا جائزہ لے لیتی تو ملٹری کورٹس پر آرٹیکل 10(a) اور فیئر ٹرائل، DUE- PROCCESS کا کچا چٹھا سامنے آجاتا'۔

اپنے کالم میں حفیظ اللہ نیازی نے دہائی دی کہ 'زندگی بھر شاید ہی قسم کھائی ہو، لیکن اب خدا کو گواہ بنا کر خواجہ حارث کو بتانا ہے کہ میرے بیٹے کا ٹرائل غلط تھا، کاش سپریم کورٹ اس کیس پر کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے، ریاستی وکلاء کی آئینی و قانونی گتھیاں الجھانے سلجھانے سے زیادہ ملٹری ٹرائل کیس میں کوئی ایک کیس بطور کیس اسٹڈی ہی کھنگال لیتی، ایک موقع پر سپریم کورٹ نے 105 ملزمان کے ٹرائل کی تفصیلات بھی طلب کیں مگر تفصیلات نہ دیکھی گئیں'۔

حفیظ اللہ نیازی نے انکشاف کیا کہ 'ملٹری کورٹس کے فیصلہ کا ہی یہ اعجاز ہے کہ میرے بیٹے کو 10 سال قید بامشقت، جیل منتقلی کے باوجود الگ تھلگ ہائی سکیورٹی جیل یعنی جیل کے اندر جیل میں رکھا ہوا ہے، حسان نیازی عملاً آج بھی اداروں کی تحویل میں ہے۔ میری دسترس ہوم سیکرٹری،IG جیل، سپریٹنڈنٹ جیل سب تک ہے مگر سب اپنے اپنے دفتروں میں خانہ پُری کیلئے موجود ہیں، حساس معاملات میں بالکل بے دست و پا اور بے بسی کی تصویر ہیں، سب کا جواب ایک ہی ہوتا ہے کہ آپ کے بیٹے کے معاملہ میں SOPs بہت سخت ہیں، جیل مینوئل کےمطابق سہولیات میسر نہیں ہیں'۔

حفیظ اللہ نیازی نے اعتراف کیا کہ 'سرکاری اہلکاروں سے گلہ بنتا نہیں کہ جس ملک میں چیف ایگزیکٹو، وفاقی و صوبائی وزراء کی حدود و قیود متعین ہوں، وہاں 26ویں آئینی ترمیم تو آئی ہی ریاست پاکستان کو ریلیف دینے ہے، نااُمیدی میری دیکھنی چاہیے، اپنی ذات تک 50 سال سے’’زہر ہلاہل‘‘ کو قند کہے بغیر زندہ ہوں، جو تھوڑی باقی وہ بھی کٹ جائیگی، مملکت کے دور کے کینگرو کورٹس اور نازی عدالتیں بھی دیکھی ہیں، ’’فاحکم بین الناس بالحق‘‘ کے نیچے کئی بار انصاف کا خون ہوتے دیکھ چکا ہوں، جس مملکت میں انصاف عنقا ہو، جہاں سیاسی عدم استحکام ناپید ہو، تو اُن قوموں کا تحلیل ہو نا بنتا ہے، یہی تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے'۔

کالم کے اختتام میں حفیظ اللہ نیازی لکھتے ہیں کہ 'ریاستی اداروں نے سانحہ 9مئی پر کارروائی کی بجائے اپنا بیانیہ اور مؤقف گنوا دیا، جس کسی نے معافی مانگی وہ بے گناہ قرار پایا اور باعزت بری ہوا، دوسری جانب میرے بیٹے کو سزا دینے کیلئے جھوٹ گھڑا گیا اور انصاف کے ترازو میں ڈنڈی ماری گئی، آج آئین پاکستان، آئینی عدالتوں کے کٹہرے میں ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آئینی عدالت ’’جسٹس منیر کا نام روشن کرے گی‘‘ یا آئین کے تحفظ میں نام کمائے گی؟'

تازہ ترین