کمل ہاسن بطور گینگسٹر، ’ٹھگ لائف‘ کیوں دیکھنی چاہیے؟
فلم منی رتنم اور کمل ہاسن کی شراکت میں بنائی گئی ہے
’ٹھگ لائف‘ اس سیزن کی سب سے زیادہ موسٹ اویٹڈ فلموں میں سے ایک ہے جو گزشتہ روز ریلیز کی گئی ہے۔
فلم منی رتنم اور کمل ہاسن کی جوڑی کا شاہکار ہے، فلمساز منی رتنم اور ساؤتھ کے سپر اسٹار کمل ہاسن کو ایک ساتھ کام کرتے ہوئے 38 سال ہوچکے ہیں اور یہ فلم ان کی بہت سالوں بعد واپسی ہے۔
فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی کہانی خود کمل ہاسن نے لکھی ہےجس سے فلم کی انفرادیت مزید بڑھ گئی ہے۔
فلم میں کمل ہاسن نے رنگا رایا سکتھی ویل نامی دہلی میں بسے ایک گینگسٹر کا کردار ادا کیا ہے جو بچپن سے ہی موت کا کھیل کھیلتا آیا ہے۔
وہ ایک ایسی زندگی جیتا ہے جس میں اپنے سب پیاروں کو کھو دیتا ہے لیکن یہی اس کا سب سے بڑا دکھ بن جاتا ہے۔
کہانی کا آغاز ہوتا ہے 90 کی دہائی میں جب گینگ وار عروج پر ہوتی ہے اور کمل ہاسن ایک یتیم بچے امر (سِلمبرسن ٹی آر) کو گود لے لیتا ہے۔
رنگا(کمل ہاسن ) اس کو تربیت دیتا ہے، اپنی زندگی میں سیکھی گئی مجرمانہ سرگرمیاں اسے سکھاتا ہے اور پھر اپنی مجرمانہ سلطنت اسے سونپ کر جیل چلا جاتا ہے لیکن وہ جیل سے ہی سب کچھ کنٹرول کررہا ہوتا اور جیل ہی اس کا ٹھکانہ ہوتی ہے۔
لیکن اس دوران ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے جو اس کی اس سلطنت کو پاش پاش کردیتا ہے ، اس کی بادشاہی ختم ہوجاتی ہے اور پھر کہانی کا رخ مڑ جاتا ہے۔
فلم کا پہلا حصہ کافی متاثر کن ہے، منی رتنم جنہیں دنیا ایک جادوگر اسکرین کریئٹر مانتی ہے،رنگا رایا کے کردار کے گرد فلم بینوں کو جوڑے رکھتے ہیں ، اس دوران فلم میں کئی تیز رفتار مناظر بھی آتے ہیں ، جذباتی کشمکش بھی پیش آتی ہیں اور اس دوران ایک شادی کا گانا ’جنگو چھا‘ بھی ناظرین کو فلم سے جوڑے رکھتا ہے۔
لیکن جیسے ہی دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے فلم کا ٹریک بدل جاتا ہے اور فلم اپنی روانی کو چھوڑ کر تشدد کی راہ پر چلی جاتی ہے جو زیادہ تر آج کل کی ساؤتھ کی فلموں کا خاصا ہے۔
کہانی کا مرکزی کردار رنگا اسکرپٹ کے مطابق یہاں وہاں بھٹکنے لگتا ہے، وہ پہلے ہی اپنے خاندان کی بد دعا کا شکار ہے اور اس کے بعد کہانی کے کچھ مزید کردار بھی سامنے آتے ہیں۔
اس دوران رنگا کو امر کی گمشدہ بہن چندرا کو ڈھونڈنے کا جذبہ ماند پڑتا دکھائی دیتا ہے اور پھر فلم کے اختتام پر کہیں نمودار ہوتا دکھائی دیتا ہے جو کہانی کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیتا ہے اور ناظرین کے لیے کرداروں سے جڑنا کافی مشکل بنا دیتا ہے۔
کمل ہاسن، جو اب 70 برس سے اوپر ہو چکے ہیں، حیران کن طور پر متحرک اور چست نظر آتے ہیں۔
اگرچہ ان کا کردار کئی دھوکے سہتا ہے، پھر بھی ناظرین اس کے لیے وہ ہمدردی محسوس نہیں کر پاتے جو ایک مرکزی کردار کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم، اپنی مرضی سے جیون ساتھی چننے کے حق اور دیگر اصلاحی اقدار کے حامی ہیں، حتیٰ کہ جب فلم میں تشدد کی انتہا ہوتی ہے تو وہ فلم میں ایک نیک گینگسٹر کے طور پر ابھر رہے ہوتے ہیں۔
پہلے ہاف میں ان کی اور سلمبرسن کی کیمسٹری بہت اچھی دکھائی گئی ہے لیکن جب دونوں کرداروں کے بیچ دراڑ آتی ہے تو وہ ربط ناظرین سے ٹوٹ جاتا ہے۔
دیگر باصلاحیت اداکار جیسے جوجو جارج، علی فضل، مہیش منجریکر، ناصر، اشوک سیلوان، بگاوتھی پرومل کو فلم میں مناسب مواقع نہیں ملے اور ان کے کردار بےجان محسوس ہوتے ہیں۔
خواتین کردار جیسے تریشا، ابھی رامی اور ایشوریہ لیکشمی بھی روایتی منی رتنم کی حسین اور مضبوط ہیروئن کے تصور سے محروم رہیں۔
ان کا وجود صرف رنگا رایا کے نیک آدمی امیج کو مکمل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
تکنیکی اعتبار سے فلم شاندار ہے، 1994 کے فلیش بیک مناظر میں کمل ہاسن کو جوان دکھانے کے لیے ڈی ایجنگ ٹیکنالوجی کا استعمال انتہائی نفاست سے کیا گیا ہے۔
اے آر رحمان کی موسیقی فلم کو ایک گہرا جذباتی پس منظر فراہم کرتی ہے اور روی کے چندرن کی سینماٹوگرافی نے فلم کو ایک منفرد کشش فراہم کی ہے۔ تاہم یہ تمام خوبیاں اس فلم کی اس خامی کو نہیں چھپا سکتیں کہ فلم جذباتی طور پر ناظرین کو قائل نہیں کر پاتی۔
’ٹھگ لائف‘ کے بارے میں حتمی بات کی جائے تو یہ تکنیکی طور پر ایک مضبوط فلم ہے جس میں بہت کچھ تھا لیکن فلم کی روح غائب نظر آئی۔
یہ فلم ان لوگوں کے لیے ضرور دیکھی جا سکتی ہے جو کمل ہاسن یا منی رتنم کے پرستار ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ وقت ضائع کرنے جیسی ہے جہاں منظرنامے کا جاہ و جلال موجود ہے مگر کہانی کی جان نہیں۔
ٹھگ لائف ایک شان دار خواب کی مانند ہے جس کی تعبیر ادھوری رہ گئی ، ایک فلم جو دل سے کم اور آنکھوں کے لیے زیادہ بنائی گئی ہے۔





