عالمی منظر

اسرائیل فلسطین تنازع کا پسِ منظر

Web Desk

اسرائیل فلسطین تنازع کا پسِ منظر

اسرائیل فلسطین تنازع کا پسِ منظر

سرزمین فلسطین کو سرزمینِ انبیاء بھی کہا جاتا ہے جس کی سرزمین پر کئی انبیاء ہو کر گزرے ہیں۔

 جلیل القدر انبیاء جیسے ابراہیم، اسحاق، یعقوب او ر عیسیٰ ابن مریم (علیہم السلام) کی جائے پیدائش ہے۔ فلسطین کا شہر یروشلم نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں کیلئے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ عیسائی، یروشلم کو حضرت عیسیٰ کی مناسبت سے مقدس مانتے ہیں جبکہ یہودی یروشلم کو حضرت یعقوب کے حوالے سے مقدس مانتے ہیں۔یہ زمین یہودی تاریخ کا گڑھ ہے کیونکہ اسی سرزمین پر یہودی عقائد وجود میں آئے۔

اسرائیل فلسطین تنازع

اسرائیل فلسطین تنازع غزہ اور اسرائیل کے یہودیوں کے درمیان تقریباً سو سال سے جاری سیاسی اور فوجی تنازع ہے۔ دو اقوام جن میں فلسطینیوں کی اکثریت مسلمانوں پر مبنی ہے اور اسرائیٔلی جو یہود پر مشتمل ہے، ایک زمین کے خطے یعنی موجودہ اسرائیل پر اپنا دعویٰ کررہے ہیں۔ انیسویں صدی میں فلسطین پر سلطنت عثمانیہ کا قبضہ تھا۔

1923 ء میں سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد اس خطے کا انتظام فرانس اور برطانیہ کے پاس چلا گیا۔ برطانیہ اور فرانس نے اسے آپس میں بانٹ لیا۔ اس کے ساتھ ہی پورے یورپ سے یہودی جوق در جوق فلسطین کا رخ کرنا شروع ہوگئے اور وہاں اپنی آبادی تیزی سے بڑھانے لگے۔

 انہوں نے بہت کم عرصے میں فلسطین میں اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے۔ جرمنی میں ہٹلر کے یہودیوں کے قتلِ عام کے بعد پوری دنیا کے سامنے خود کو مظلوم ظاہر کرنا شروع کردیا جس پر باقی کے مغربی ممالک نے یہودیوں سے کہا کہ ’’آپ لوگ ہمارے پاس آ جائیٔں، ہم آپ کی رہائٔش کے لیٔے علیحدہ زمین کا ٹکڑا دے دیں گے‘‘ مگر یہودیوں نے انکار کردیا اور پوری دنیا سے گروہ در گروہ فلسطین میں جمع ہونا شروع ہوگئے۔ جب یہودیوں کا جہاز فلسطین پہنچا تو ان کے جہاز پر لکھا تھا کہ ’’پوری دنیا نے ہمیں مایوس کردیا۔ اے فلسطین والوں، تم ہمیں مایوس نہ کرنا۔‘‘ فلسطین کے مقامی عربوں نے انسانیت کے ناتے ان یہودیوں کی مدد کی اور انہیں اپنی سرزمین میں آنے دیا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہودیوں نے اپنی مکاریوں اور پیسوں کی مدد سے زمینیں خرید خرید کر آباد ہونا شروع کردیا اور اسی زمین پر آج اسرائیل قائٔم ہے۔

یہودیوں اور مقامی عربوں کے درمیان کشیدگی نے زور تب پکڑا جب حکومت برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کے رہنے کےلیے ایک علاقہ مخصوص کردیا۔ اس فیصلے کو عربوں نے قبول نہیں کیا جبکہ یہودیوں نے اسے فوراً قبول کرلیا۔

1920ء سے 1940ء کے درمیان فلسطین میں یہودی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھنے لگی۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران فلسطین میں آکر اپنی جان بچانے والے یہودیوں نے حکومت برطانیہ پر اپنے الگ وطن کے قیام کے لیے زور دینا شروع کردیا۔ یہودیوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ مقامی عربوں اور برطانیہ کے درمیان تشویش بڑھنے لگی۔ دوسری طرف یورپ میں صہیونی تحریک تیزی سے بڑھنے لگی۔ اس تحریک کے مطابق یہودیت ایک مذہب نہیں ایک قوم ہے اور ان کا اپنا ایک الگ وطن ہونا چاہیے۔

 اقوام متحدہ نے بڑھتی ہوئی پُرتشدد کارروائیاں دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ فلسطین کے علاقے کو دو حصوں میں بانٹ دیا جائے۔ایک مسلمان اور ایک یہودی ریاست کے طور پر اور یروشلم ایک بین الاقوامی شہر ہوگا۔ اقوام متحدہ نے یہ فیصلہ فلسطین کو آزادی اور یہود کو الگ وطن دینے کے لیے کیا۔ مگر آس پاس کے مسلم ممالک نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ فلسطین کا علاقہ ان سے زبردستی چھینا جا رہا تھا اور جبکہ یہود دھوکے سے وہاں آباد ہوئے تھے۔

آخرکار 14مئٔی 1948ء کو اسرائیل وجود میں اگیا۔ اس سے اگلے ہی دن مصر، اردن، عراق اور ایران نے اسرائیل پر حملہ کردیا۔ یہ پہلی عرب اسرائیل جنگ تھی اور اسے ’النکبہ‘ بھی کہتے ہیں۔ اس جنگ میں اسرائیل جیت گیا اور جنگ کے نتیجے میں ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو اردگرد کے ممالک میں جان بچانے کے یے پناہ لینی پڑی جبکہ کچھ لوگوں کو اسرائیلی فوجیوں نے بےدخل کردیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے اقوام متحدہ کے دیئے گئے علاقے سے بڑھ کر تمام فلسطین پر قبضہ کرلیا، سوائے غزہ اور ویسٹ بینک کے۔ غزہ مصر کے زیر انتظام تھا اور ویسٹ بینک سیریا کے۔

1967ء جنگ میں اسرائیل نے سیریا سے گولڈن ہائٔٹس اور مصر سے غزہ اورسینائی اور اردن سے ویسٹ بینک پر قبضہ کرلیا۔ 1973ء کی یوم کپور جنگ میں سیریا اور مصر نے اسرائیل سے اپنے علاقے واپس لینے کے لیے ایک بار پھر حملہ کردیا۔ مصر نے امن کا معاہدہ کیا تو مصر کو سینائی واپس دے دیا گیا اور جلد ہی سیریا نے اسرائیل کو قبول کرلیا۔ غزہ پوری طرح سے یہود کے زیر انتظام آگیا اور انہوں نے وہاں کے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرکے رکھ دیا۔ گزرتے وقت کے مسلمان غزہ میں اکثریت سے اقلیت میں تبدیل ہوگئے۔

2006ء میں غزہ کا انتظام ایک فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے سنبھالا۔ 2007ء سے اسرائیل نے صرف حماس کو دھمکانے کے لیے ویسٹ بینک کے گرد گھیراؤ کر رکھا ہے جبکہ فلسطین کے لیے خوراک، پانی اور پیٹرول کا انتظام بھی یہود کے ہاتھ میں ہے۔ وہاں رہنے والے مسلمانوں کے مطابق فلسطین کے زیادہ آبادی والے علاقوں پر بمباری اور خوراک و پانی کا بند کرنا ایک اجتماعی سزا و عذاب جیسا ہے۔ ؑفلسطین میں آزادی کے حصول کے لیے جہاد دہائیوں سے جاری ہے۔ وہاں مجاہدوں نے آزادی کے حصول کے لیے اَن گنت قربانیاں دی ہیں اور پوری دنیا میں اپنی بہادری کا سکہ جمایا۔

تازہ ترین